ایران نے منگل کو سات امیدواروں کا انتخاب کیا جو 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ یہ فہرست زیادہ تر قدامت پرست امیدواروں پر مشتمل ہے اور اسے ایک سینیئر عہدے دار نے ’ناقابلِ دفاع‘ قرار دیا ہے۔
ان امیدواروں کا انتخابات شوریٰ نگہبان نے کیا ہے اور اس نے حیرت انگیز طور پر معتدل امیدوار علی لاریجانی کو مسترد کر دیا ہے جس کے بعد کٹر قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ گئے ہیں۔
شوریٰ نگہبان 12 رکنی آئینی ادارہ ہے جس میں چھ علما اور چھ قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ دوسرے کاموں کے علاوہ کونسل صدارت اور اسمبلی کے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی منظوری دیتی ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے سلسلے میں مذاکرات میں مصروف ہے، جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں الگ ہو گئے تھے۔
رئیسی نے 2017 کے صدارتی انتخابات میں 38 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، تاہم انہیں معتدل حسن روحانی نے شکست دے دی تھی، جو آئین کے مطابق لگاتار تین بار صدر بننے کے اہل نہیں ہیں۔
عدلیہ کے سابق سربراہ اور علی لاریجانی کے بھائی آیت اللہ صادق آملی لاریجانی نے کہا، ’مجھے شوریٰ کا فیصلہ کبھی بھی اتنا ناقابلِ دفاع نہیں لگا، چاہے وہ منظوری کا فیصلہ ہو یا برطرفی کا۔‘
انہوں نے ٹوئٹر پر ’دفاعی اداروں‘ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ امیدواروں کو منظور کرنے والے ادارے پر ’جعلی رپورٹوں‘ کی مدد سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آملی لاریجانی کی یہ تنقید کسی اعلیٰ عہدے دار کی جانب سے ایران کے انتخابی عمل پر شاذ و نادر ہونے والی تنقید ہے۔
شوریٰ نگہبان نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا۔
احمدی نژاد نے ابھی تک اس پر تبصرہ نہیں کیا۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والی اس فہرست پر اصلاح پسندوں، حتیٰ کہ خود قدامت پسندوں کی جانب سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
اصلاح پسند صحافی مصطفیٰ فقیہی نے ٹوئٹر پر کہا، ’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ شورایٰ نگہبان کو انتہائی بائیں بازو سے لے کر انتہائی دائیں بازو والوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
ایرانی میڈیا نے توقع ظاہر کی تھی کہ اصل ٹکر رئیسی اور لاریجانی کے درمیان ہو گی۔ اصلاح پسندوں نے اپنی امیدیں اسحاق جہانگیری سے لگا رکھی تھیں جو روحانی کے نائب صدر تھے، مگر انہیں بھی نااہل قرار دیا گیا۔
جہانگیری نے کہا کہ ان کی نااہلی ’عوامی شمولیت اور شفاف مقابلے کے لیے سنگین خطرہ‘ ہے۔
کٹر قدامت پسند تسنیم نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر ان چیف کیان عبداللہی نے کہا کہ شوریٰ کا فیصلہ ’عوام کے ناقابلِ جواز‘ ہے اور قدامت پسندوں کی ’بڑی تعداد‘ اس کی مخالفت کرتی ہے۔
گذشتہ برس فروری میں 57 فیصد ایرانی لیجسلیٹو انتخابات سے الگ رہے تھے۔ ان میں ہزاروں امیدوار نااہل قرار دیے گئے تھے جن کی بڑی تعداد معتدل اور اصلاح پسند امیدواروں پر مشتمل تھی۔
مجید نامی تہران کے ایک انجینیئر نے اے ایف پی کو بتایا کہ نااہلی کے اس عمل سے انتخابی عمل محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’پہلے اسے چھپایا جاتا تھا، مگر اب نہیں۔‘
ایک فٹنس انسٹرکٹر فرنوش نے کہا، ’میرے لیے فرق نہیں پڑتا کہ کون صدر بنتا ہے، کیوں کہ جو بھی بنے، کچھ نہیں بدلنے والا۔‘