خیبر پختونخوا گورنر انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ پر گورنر شاہ فرمان کی جانب سے جبری رخصت پر بھیجے جانے کے فیصلے کو ویمن یونیورسٹی صوابی کی وائس چانسلر ڈاکٹر شاہانہ عروج نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
ڈاکٹر شاہانہ عروج پر گورنر انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ میں ’غیر قانونی بھرتیوں، یونیورسٹی فنڈ کے غیر قانونی استعمال اور یونیورسٹی کے نام پر اسلام آباد میں 75 ہزار روپے ماہانہ پر گیسٹ ہاؤس لینے‘ کے الزامات لگائے گئے تھے، جس کے بعد گورنر نے تین مہینے کے لیے انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا ہے۔
گورنر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں درج ہے کہ ’گورنر نے بطور چانسلر ویمن یونیورسٹی صوابی میں غیر قانونی بھرتیوں اور اختیارات کے بے جا استعمال کے حوالے سے تفتیش کا حکم دیا تھا۔‘
رپورٹ کے مطابق ’تفتیش میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہانہ نے تقریباً دو درجن کے قریب غیر قانونی بھرتیاں کیں، جن میں سب سے زیادہ انہی کے رشتہ دار ہیں جو صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شاہانہ عروج کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اور اس سے پہلے وہ کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت ڈین، پرو وائس چانسلر اور ایکٹنگ وائس چانسلر خدمات ادا کرچکی ہیں۔
ڈاکٹر شاہانہ نے امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے مائیکرو بیالوجی میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
گورنر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر شاہانہ نے 23 میں سے 21 ملازمین کی دوسرے صوبوں سے بھرتی کی ہے جو یونیورسٹیز قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘
اسی طرح انسپکشن رپورٹ کے مطابق ’ڈاکٹر شاہانہ نے غیر قانونی طریقے سے چند فکسڈ کنٹریکٹ پر بھرتی ملازمین کو اضافی مراعات دی تھیں جو یونیورسٹیز ایکٹ کی شق 11 کی خلاف ورزی ہے۔‘
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے نام پر اسلام آباد میں 75 ہزار ماہانہ کرائے پر گیسٹ ہاؤس بھی لیا ہوا تھا، جس میں وہ خود رہ رہی تھیں جب کہ روزانہ یونیورسٹی کے ریسورسز ضائع کرتے ہوئے وہ اسلام آباد سے صوابی آتی جاتی ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’اسلام آباد میں یونیورسٹی کے نام پر گیسٹ ہاؤس لیتے ہوئے اس کے یونیورسٹی فنڈ سے لاکھوں روپوں کا فرنیچر بھی خریدا گیا جب کہ یونیورسٹی رجسٹرار اور پی آر او کو بھی غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیا گیا تھا۔‘
گورنر انسپکشن ٹیم نے اختیارات سے تجاوز کیا: ڈاکٹر شاہانہ عروج
دوسری جانب ڈاکٹر شاہانہ عروج نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تفتیش کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ میں اسلام آباد کے جس گیسٹ ہاؤس کی بات ہوئی ہے وہ اصل میں یونیورسٹی ہی کا گیسٹ ہاؤس ہے جس میں یونیورسٹی کے محقق، سلیکشن بورڈ یا سینیٹ کے ممبران بطور مہمان قیام کرتے تھے، جب کہ ایک کمرے میں وہ خود رہ رہی ہیں۔‘
ڈاکٹر شاہانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یونیورسٹی جس علاقے میں واقع ہے وہاں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر میں نہیں رہ سکتی، اسی وجہ سے میں اسلام آباد میں رہ رہی ہوں۔‘
اسی طرح رپورٹ میں تین ریٹائرڈ ملازمین بھرتی کیے جانے کے الزام پر ڈاکٹر شاہانہ کا کہنا تھا کہ ان تینوں کو چھ مہینے کے لیے یونیورسٹی قوانین کے مطابق ہی بھرتی کیا گیا تھا کیونکہ جس فیکلٹی میں ان کو بھرتی کیا گیا تھا وہاں سٹاف کی کمی تھی اور بھرتی قانون کے مطابق کی گئی۔
ڈاکٹر شاہانہ عروج نے گورنر کی جانب سے عہدے سے ہٹانے اور جبری رخصت پر بھیجے جانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گورنر انسپکشن ٹیم کی تفتیش یکطرفہ ہے اور اس ٹیم کو اس قسم کی تفتیش کا قانونی اختیار ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر شاہانہ نے عدالت سے استدعا کی کہ گورنر انسپکشن ٹیم کی جانب سے رپورٹ کو لیک کرنے اور انہیں سنے بغیر رپورٹ کو میڈیا میں چلانے کی وجہ سے ان کے 40 سالہ اکیڈمک کیریئر اور عزت نفس کو نقصان پہنچا ہے۔
پٹیشن میں لکھا گیا ہے ’درخواست گزار(ڈاکٹر شاہانہ عروج) ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اکیڈمیشن، محقق اور اعلیٰ پائے کی مائیکرو بیالوجسٹ ہیں، جنہوں نے 40 سال تعلیم کے شعبے میں گزارے۔ وہ اب تک 100 کے قریب تحقیقی مقالے لکھ چکی ہیں اور گورنر انسپکشن ٹیم کی الزامات سے ان کے ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔‘
معاملہ کیسے شروع ہوا؟
عدالت میں جمع کی گئی درخواست اور ڈاکٹر شاہانہ کی جانب سے ماضی میں گورنر کے نام لکھے گئے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملہ ڈاکٹر شاہانہ کے چارج سنبھالنے کے بعد شروع ہوا۔
پٹیشن میں لکھا گیا ہے کہ ’جب ڈاکٹر شاہانہ نے چارج سنبھال لیا تو انہوں نے یونیورسٹی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ غیر قانونی بھرتی کیے گئے ملازمین کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔‘
پٹیشن کے مطابق: ’انہی ملازمین نے عدالت میں اپنی برطرفی کے خلاف درخواست دائر کی جب کہ درخواست گزار ڈاکٹر شاہانہ پر کچھ بڑے لوگوں کی جانب سے پریشر بھی ڈالا گیا کہ ان لوگوں کو دوبارہ بھرتی کیا جائے، لیکن ڈاکٹر شاہانہ نے ان کی بات نہیں مانی۔‘
بعد ازاں ڈاکٹر شاہانہ نے فروری 2021 میں گورنر خیبر پختونخوا کے نام ایک خط لکھا (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے)، جس میں انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے چارج سبھالا تو ان کی قیادت میں یونیورسٹی میں بہت مثبت اقدامات کیے گئے، جن الائیڈ ہیلتھ سائنسز فیکلٹی کا قیام بھی شامل ہے، جس سے صوبے کی خواتین مستفید ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی خط میں ڈاکٹر شاہانہ نے بتایا کہ ان کے آنے کے بعد جب بعض ’غیر قانونی طریقے‘ سے بھرتی کیے گئے ملازمین کو نکالا گیا تو ان ہی ملازمین نے ’صوبائی تعصب‘ کی بنیاد پر ہراساں کرنا شروع کیا اور ان پر اپنے رشتے داروں کو جامعہ میں بھرتی کرنے جیسے گھٹیا الزامات لگائے گئے۔‘
خط میں گورنر سے درخواست کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ’میں یہ چیلنج کرنا چاہتی ہوں کہ مجھ پر اپنے رشتہ داروں کو جامعہ میں بھرتی کیے جانے کے الزامات کی تفتیش کرائی جائے اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بھرتی ہونے والوں میں ایک بھی میرا رشتہ دار ہے تو میں استعفیٰ دے دوں گی اور مجھ پر الزامات ثابت نہیں ہوئے تو الزامات لگانے والوں کو سزا دی جائے۔‘
اسی خط میں ڈاکٹر شاہانہ کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’مجھ پر صوبہ سندھ سے اور اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، لیکن تادم تحریر جامعہ فیکلٹی کی تعداد 85 ہے جن میں محض چار افراد کا تعلق سندھ سے ہے جب کہ انتظامی عملے کے 82 ملازمین میں سے دو افراد کے پاس سندھ کا ڈومیسائل ہے۔‘
خط کے ساتھ ملازمین کی لسٹ بھی منسلک ہے اور خط میں گورنر سے درخواست کی گئی ہے کہ اس لسٹ کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ کس طرح جامعہ میں صوبائی تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے۔