اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافی اور وی لاگر اسد علی طور کو ملکی اداروں کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں حاضری کا ایک نوٹس کالعدم قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے کو تحقیقات کے بغیر کسی شہری کو سمن نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم عدالت عالیہ نے صحافی اور اینکر پرسن شفا یوسفزئی کی جانب سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں دائر درخواست پر اسد طور کو جاری ہونے والے ایف آئی اے کے سمن کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے بدھ کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے قوانین کی آڑ میں اختیارات کے مبینہ بے جا استعمال کے خلاف اسد علی طور اور کنول شوزب کی درخواستوں کی سماعت کی۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو اسد علی طور کے خلاف دو درخواستیں موصول ہوئی تھیں، درخواست کنندگان میں صحافی شفا یوسفزئی اور فیاض محمد راجہ شامل ہیں۔
شفا یوسفزئی نے اپنی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ اسد طور نے بعض یو ٹیوب ویڈیوز کے ذریعے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ فیاض راجہ نے مبینہ طور پر ملکی اداروں کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر اسد طور کے خلاف شکایت دائر کی تھی۔
شفا یوسفزئی کی درخواست پر ایف آئی اے نے اسد طور کو بدھ دو جون کو طلب کیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کے باعث ایف آئی اے کے سمن پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
دوسری جانب فیاض راجہ کی درخواست پر اسد طور کو جمعے چار جون کو ایف آئی اے میں پیش ہونا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس نوٹس کو کالعدم قرار دے دیا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے اسد طور پر نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھس کر حملے میں انہیں زخمی کیا تھا، جس کے باعث وہ آج کل موضوع بحث ہیں۔
اسد طور اور ان پر ہونے والے حملے کو مزید شہرت تب ملی جب اس واقعے کے خلاف احتجاج کے دوران سینئیر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے متنازع تقریر کی، جس کے باعث جیو ٹی وی نے انہیں جبری رخصت پر بھیجتے ہوئے انہیں معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی سے روک دیا۔
عدالتی کارروائی
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران عدالت میں ایف آئی اے کے وکیل سے دریافت کیا: ’وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اسد طور سے متعلق کوئی تفتیش کی؟‘
اس سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ ہائی کورٹ سمن کو کالعدم قرار دے کر ایف آئی اے کو تفتیش سے روک چکی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی عدالت کسی کو تفتیش سے نہیں روکتی۔ ’ہم کیس میچور ہونے سے پہلے لوگوں کو نوٹس جاری کرنے سے روکتے ہیں۔‘
عدالت کے سوال پر ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ اسد طور کو پیکا قانون (پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کے سیکشن 20 کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کسی شہری کی شہرت کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے سے روکتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ایف آئی اے پیکا ایکٹ کے تحت ایسا نوٹس جاری نہیں کر سکتی، صرف متاثرہ شخص جس کی ساکھ متاثر ہوئی ہو، وہی شکایت کر سکتا ہے، نہ کہ کوئی تھرڈ پارٹی۔‘
معزز جج نے ایف آئی اے کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’ایک شخص نے ماحولیات سے متعلق کوئی وٹس ایپ پر بات کی اور آپ نے اسے بھی نوٹس کر دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ وہ شخص وٹس ایپ گروپس میں مواد شئیر کرکے کسی کی شہرت خراب کررہا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’کہاں اور کیسے اتنی سی بات پر کسی کی شہرت خراب ہوتی ہے، ایف آئی اے اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرسکتی ہے ہم نے یہ دیکھنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ کو پہلے ایف آئی اے کو اپنی درخواست سے متعلق مطمئن کرنا ہے۔ ’ایف آئی اے عدالت کے آرڈرز کا کچھ خیال نہیں کر رہی، ورنہ یہ دوبارہ نوٹس کبھی نہ کرتے۔‘
عدالت نے اسد طور کو جاری کیے گئے ایف آئی اے کے نوٹس کے فارمیٹ پر بھی اعتراضات اٹھائے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی: ’ایف آئی اے کو بتائیں کہ نوٹس میں کیا کچھ لکھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے بغیر تاریخ اور کسی شہری کو سمن کرنے کی وجوہات بتائے بغیر نوٹس جاری کر رہی ہے، اس طرح تو ایف آئی اے نہیں چل سکتی۔
انہوں نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ آئندہ تاریخ پر بتایا جائے کہ شکایت مجوزہ طریقہ کار پر پوری اترتی ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ایف آئی اے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی کہ یہ کرمنل کیس ہے اور اس کے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے یہ بھی بتائے کہ مستقبل میں کسی شہری کو نوٹس کیسے جاری کیا جائے گا۔
صحافی اور اینکر پرسن شفا یوسفزئی، جو کمرہ عدالت میں موجود تھیں، نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنر نے یو ٹیوب پر ویڈیوز میں ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے اور اسی لیے انہوں نے ان کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی۔
انہوں نے کہا: ’مجھے کہا گیا تھا کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں ہے اس لیے یہ قدم نہ اٹھائیں، لیکن یہ سٹینڈ صرف میرے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے ہے جو کام کی خاطر گھر سے باہر قدم نکالتی ہے اور اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرتی ہے اور خاموش رہتی ہے۔‘
شفا یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’ایک صحافی کی حیثیت سے اگر وہ اپنے حقوق کے لیے ہی آواز نہ اٹھا سکیں تو پھر ٹی وی سکرین پر دوسروں کے لیے بات کرنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اگر خاموش ہی رہنا ہے تو پھر نظام عدل کا فائدہ ہی کیا ہے؟‘
شفا نے مزید کہا کہ عدالت نے ان کی درخواست کو حقیقی قرار دیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہاں (عدالت میں) موجود تھی۔