پنجاب کے جنوبی اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں جرائم پیشہ افراد پر مشتمل منظم ڈکیت گینگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں گذشتہ ہفتہ لادی گینگ کے خلاف رینجرز کی مدد سے آپریشن کیا گیا لیکن ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنے کے علاوہ سکیورٹی فورسز کو کامیابی نہ مل سکی اور یہ گینگ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ میں فرار ہو گیا۔
دوسری جانب راجن پور میں کچے کے علاقے میں کئی سال پہلے خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں بڑھنے پر بدنام زمانہ ’چھوٹو گینگ‘ کے خلاف فوج کی مدد سے کارروائی کی گئی اور سرغنہ سمیت گینگ کے کئی اراکین کو ہتھیار ڈالنے پر گرفتار کر لیا گیا۔
مگر گذشتہ چند سالوں میں اس گینگ کے فرار ہونے والے اراکین تین مختلف ناموں سے گینگ بناکر منظم ہو گئے ہیں۔
ان گروہوں کے تین اہم اراکین کو پولیس نے چند دن پہلے ملتان سے گرفتار کیا تو ان کی رہائی کے لیے ان کے ساتھیوں نے دو پولیس اہلکاروں کو کچے میں بنی چوکی سے اغوا کر کے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
پولیس نے دو روز پہلے آپریشن شروع کیا اور دونوں پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا تاہم جرائم پیشہ گینگ کے بیشتر اراکین گرفتار نہیں ہوسکے۔
صوبہ سندھ کے علاقے شکار پور اور راجن پور میں کچے کا علاقہ جو دریائے سندھ کے دونوں اطراف واقع ہے، ان ڈاکوؤں کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ جدید ہتھیاروں اور منظم نیٹ ورک کے باعث سکیورٹی اداروں کے لیے یہ آپریشن کسی امتحان سے کم نہیں۔
راجن پور میں آپریشن کیسے شروع ہوا؟
ڈی پی او راجن پورفیصل گلزار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس نے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل چھوٹو گینگ سے جنم لینے والے اس گروہ کے تین افراد ملتان سے گرفتار کیے تو انہوں نے کچے میں بنائی گئی پولیس چوکی سے دو اہلکاروں کو اغوا کر کے مطالبہ کیا کہ ان کے گرفتار اراکین کو رہا کیا جائے، پھر وہ مغوی اہلکاروں کو چھوڑیں گے۔
لیکن پولیس نے ان کا مطالبہ ماننے کی بجائے دو دن پہلے آپریشن شروع کیا اور ان کے سہولت کاروں کو بھی حراست میں لیا جس کے بعد انہوں نے دباؤ میں آکر اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے تاہم ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
ترجمان راجن پور پولیس کلیم محبوب چشتی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس سات ماہ میں 667 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر چکی ہے، کچے کے علاقے میں ڈکیتوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے چیک پوسٹ اور چوکیاں بھی قائم ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’پولیس نے فوج کی مدد سے اپریل 2016میں بھی چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی کی تھی، راجن پور ضلع کے دریا کے علاقوں میں کیے گئے اس آپریشن کوضرب آہن کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اس کے ارکان بشمول سرغنہ غلام رسول چھوٹو نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ مارچ 2019 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت (اے ٹی سی) نے غلام رسول چھوٹو اور اس کے 19 ساتھیوں کو مختلف جرائم میں سزائے موت سنائی اور ان پر 69 لاکھ سے زائد جرمانہ بھی عائد کیاگیا۔ انہیں سزا انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور دھماکہ خیز سبسٹنس ایکٹ 1908 کی دفعات کے تحت دی گئی۔‘
تین گروہوں کا منظم ہونا اور پولیس کو درپیش چیلنجز
راجن پور ڈسڑکٹ پریس کلب کے صدر شہزاد منظور کے مطابق ’اس 60 سے 70رکنی چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن میں چند سال پہلے گھیراؤ کے بعد18کے قریب اراکین نے سرغنے سمیت ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ باقی اراکین فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اس وقت یہ سب ایک ہی نام چھوٹوگینگ کے ساتھ جرائم کرتے تھے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’راجن پور کچے کا علاقہ 120 کلومیٹر بنتا ہے جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے اور دوسری طرف سندھ کا علاقہ کشمور اور شکار پور لگتے ہیں۔ چھوٹو گینگ سرغنہ غلام رسول چھوٹو کی گرفتاری کے بعد فرار ہونے والے اراکین تتر بتر ہوگئے اور کچھ شکار پور چلے گئے اور کئی لادی گینگ میں شامل ہوگئے۔ کئی ایسے تھے جنہوں نے تین مختلف ناموں سے اپنے اپنے گینگ بنائے جن میں لٹھانی گینگ، لُنڈ گینگ اور سکھانی گینگ شامل ہیں۔ یہ جرائم الگ کرتے ہیں مگر جب آپریشن ہو یا ان کے خلاف کارروائی شروع ہو تو یہ اکھٹے ہوجاتے ہیں۔‘
شہزاد منظور نے بتایا کہ ’ایک اندازے کے مطابق ان کی کل تعداد 70سے 80 تک ہے۔ انہوں نے اپنے ٹھکانوں کو دریاکے کنارے خفیہ رکھ کر پولیس کے مقابلے میں چیک پوسٹ بنا رکھی ہیں۔ یہ دریا میں چھوٹے چھوٹے جزیروں پر موجود جنگلات میں غائب ہوجاتے ہیں اور ان کے پاس جدید اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’شکار پور کے ڈکیت گینگز سے بھی ان کا اتحاد ہے۔ پولیس کارروائی کے دوران وہ یہاں پناہ لیتے ہیں جو پولیس کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ پولیس کے پاس ایسے گن شپ ہیلی کاپٹر یا جدید اسلحہ نہیں کہ ان کے خلاف بڑا آپریشن کر کے قابو کیاجاسکے۔‘
کلیم محبوب چشتی نے بتایا کہ ’چھوٹو گینگ کی باقیات یہاں منظم ہوچکی ہیں اور وہ جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پولیس کی جانب سے ان کے خلاف کارروائی جاری رہتی ہے اور ان کو وارداتوں سے روکنے کے لیے کچے کے علاقے میں کئی پولیس چوکیاں اور چیک پوسٹس قائم کی گئی ہیں، تاہم یہ علاقہ اتنا وسیع اور خطرناک ہے کہ یہ مختلف خفیہ راستوں سے اس لیے بچ نکلتے ہیں کہ یہ وہیں کے رہائشی ہیں اور بستیوں میں سب ان کے خاندان آباد ہیں تو یہ ان آبادیوں کو بھی ڈھال بنالیتے ہیں۔‘
ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) ڈی جی خان فیصل رانا کے مطابق ’راجن پور کے کچے کے علاقہ میں اغوا کاروں کے خلاف پولیس آپریشن کامیاب ہو چکاہے۔ اغوا کیے گئے دونوں پولیس اہلکاروں ارشد اور عرفان منظور کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے نیز ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کےماسٹر مائنڈ سمیت 11 ملزمان اورسہولت کار زیر حراست ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ملزمان سے تفتیش جاری ہے بدترین قانون شکنی کرنے والے اغوا کاروں کو ہر صورت اپنی قانون شکنیوں کا حساب دینا ہو گا۔
کلیم محبوب قریشی کے مطابق تینوں ڈکیت گینگ کی جانب سے علاقے میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ کئی ماہ سے انہوں نے اغو، قتل، اقدام قتل، دوران ڈکیتی قتل، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی پھیلانے جیسے جرائم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔‘
’ان دنوں بھی سنگین وارداتوں میں ملوث رہے ان کے خلاف کریک ڈاؤن وقفہ وقفہ سے جاری رہا اور پولیس نے 237 کے قریب ان کے کارندے گرفتار بھی کیے۔‘
کلیم محبوب قریشی بتاتے ہیں کہ راجن پور شہر کے نواحی علاقوں میں ڈکیت معمول میں وارداتیں کرتے ہیں اور ’ان کے خلاف سنگین مقدمات بھی درج ہیں اور گرفتار بھی ہوتے ہیں لیکن گواہی نہ ہونے یا عدم ثبوتوں کی بنیاد پر یہ رہا ہو جاتے ہیں۔‘
’متاثرہ شہری ان کے خلاف گواہی دینے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور کئی بار مقدمات درج کرانے سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خلاف سامنے آنے والوں کو یہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔‘