پاکستان اور افغانستان کے مابین کئی باتیں یکساں ہونے کی وجہ سے جب بھی افغانستان کے حالات پر تجزیہ کیا جاتا ہے اسلام آباد کا نام ضرور لیا جاتا ہے خصوصا اب جب کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان سے انخلا میں مصروف ہیں۔
افغانستان کا مستقبل کیسا ہوگا، افغان عوام چاہتے کیا ہیں، افغانستان پاکستان سے کیا چاہتا ہے، افغان نوجوان کیا چاہتے ہیں؟
یہ چند وہ سوال ہیں جو افغانستان پر نظر رکھنے والے سیاست دان، عسکری ماہرین اور صحافیوں سے پوچھے جاتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے نوجوانوں پر کام کرنے والے ایک تھنک ٹینک پاک افغان یوتھ فورم کے زیر اہتمام 27 مئی کو افغانستان جانے کا موقع ملا۔ وزٹ کے دن کم ہونے کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ دن رات لگا کر افغانستان کے سیاست دانوں، صحافیوں، طالبان کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کے ممبروں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر افغانستان کے مستقبل اور پاکستان کے ساتھ تعلقات پر تجزیوں سے زیادہ حقیقت حال جاننے کی کوشش کروں گا۔
29 مئی کو ہماری ملاقات پاکستان کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی محمد عمر داودزئی کے ساتھ طے تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ کابل میں ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے مقرر مقام پر پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے پہلے نکلنا ضروری ہے۔
صدارتی محل میں عمر داودزئی کے دفتر تک پہنچنے کے لیے ہمیں آٹھ مقامات پر چیک کیا گیا۔ چیکنگ کی جگہوں پر افغانستان کے سکیورٹی کے اہل کار مامور تھے جن میں سے اکثریت اردو جانتے تھے۔ ہمارے پاس عمر داودزئی کے لیے کچھ تحائف بھی تھے جن کو بمشکل ان تک پہنچایا گیا۔
عمر داودزئی نے ہمارے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کی، پاکستان میں بیتے ہوئے ایام کا ذکر کیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ اب پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے پالیسی میں تبدیلی کا دعویٰ اس لیے کریں گے کہ پاکستان کے ادارے اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ ’جو بات جنرل قمر جاوید باجوہ نے اشرف غنی کے ساتھ میٹنگ میں کہی وہی باتیں حکومت کر رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی پالیسی اب جیوپولیٹیکل سے زیادہ جیو اکنامک ہوگئی ہے جس کے لیے اسے وسطی ایشیا تک پہنچنے اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے قیام امن ناگزیر ہے۔
عمر داودزائی کا کہنا تھا کہ اب جنگ کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی طالبان امریکی موجودگی کو لے کر جنگی جواز پیش کرتے آ رہے ہیں تاہم اب تو وہ صورت حال نہیں اس لیے جنگ کی کوئی جواز باقی نہیں ہے۔ داؤدزئی کے مطابق اب طالبان کے چند لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی کہ اب ان کے لڑنے کا جواز کیا رہ گیا ہے۔
اشرف غنی کے مشیر محمد سالم حسنی پاکستان کے سکالرز سے ناخوش تھا۔ وہ سیاسی مسائل پر زیادہ زور دے رہے تھے اور سیاسی نکتہ نظر کو لے کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے مستقبل کو پیچیدہ دیکھ رہے تھے۔ تاہم وہ اس بات پر بھی زور دے رہے تھے کہ دونوں ممالک کے نوجوان اس پیچیدگی کو دور کرسکتے ہیں۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی پریس کانفرس میں پہنچے جہاں تقریبا 20 صحافی موجود تھے۔ ان میں ایک افغان خاتون صحافی اور ایک میرے ساتھ دورے پر خاتون صحافی بھی شریک تھیں۔ میری ساتھی خاتون صحافی سے کہا گیا کہ وہ سر پر دوپٹہ رکھیں۔
حکمت یار اشرف غنی کے حکومت سے ناخوش دکھائی دے رہے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران تکبیر کے نعرے بھی لگتے رہے۔ ملاقات میں حکمت یار حکومت کے کردار پر تنقید کرتے رہے۔ انہوں نے اشرف غنی حکومت کے حوالے سے کہا کہ وہ امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کے مستقبل کو پیچیدہ دیکھ رہے تھے تاہم بار بار اس بات پر زور دے رہے تھے کہ وہ کسی صورت جنگ کی طرف نہیں جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں حکمت یار نے کہا کہ پاکستان امریکہ کو اڈے دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہمیں ملاقات میں تصویریں بنانے سے بھی منع کیا گیا۔
ہم نے پارلیمنٹ کے کئی ممبران سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان میں ایک اہم قبائلی رہنما اور ننگرہار سے افغانستان کے قومی اسمبلی کے رکن فریدون خان مومند بھی اہم نام تھے۔ ان کی زیادہ زندگی پاکستان میں گزری ہے وہ پاکستان کے لیے اور خصوصا پاکستانی عوام سے محبت کا اظہار کر رہے تھے تاہم ایک بات جو افغانستان کے عوامی نمائندوں صحافیوں اور دیگر عہدے داروں میں مشترک تھی وہ الزام کا ڈر تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے وہ تذبذب کے شکار تھے۔
کابل کے سابق گورنر احمد اللہ علیزی بھی اسی صورت حال سے دوچار تھے۔ انہوں نے زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان میں گزارا تھا۔ تاہم 20 سال سے وہ پاکستان نہیں آئے۔ علیزی چاہتے تھے کہ پاکستان آئیں۔
کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان ایک متحرک سفیر سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ وہ کابل میں پہلے سفیر ہے جو اپنی فیملی سمیت رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے افغان میڈیا کو انگیج کرنے کی کوشش کی ہے۔
منصور احمد خان افغان عوام کو ویزے کی سہولت میں مزید آسانیوں کے لیے فکرمند تھے۔
کابل میں جتنے لوگوں سے ہم ملے سب پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے خواہش مند نظر آئے۔ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بغیر ویزے کے پاکستان میں آئیں اور تجارت کریں۔ تاہم ڈر اور دونوں ممالک کے مابین عدم اعتماد کی وجہ سے وہ کھل کر بات نہیں کرسکتے۔
کابل میں گزرے ان سات دنوں میں ہم نے ایک گولی کی آواز تک نہیں سنی۔ لوگ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے تھے تاہم مستقبل کے لیے وہ سب پریشان تھے۔