شادی بیاہ کی تقریب ہو یا پھر کوئی تہوار خواتین بناؤ سنگھار کے ساتھ ساتھ زیورات پر خاص توجہ دیتی ہیں۔
ملتان میں آج بھی روایتی ملتانی کنگن خواتین کا پسندیدہ زیور ہے۔ اس کنگن کی خاص بات یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں بھی اسے ہاتھ سے بنایا جاتا ہے۔
کاریگر بڑی نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ اسے بناتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں شہرت ہے۔
بلال احمد کا تعلق ملتان، ولایت آباد سے ہے اور وہ صرافہ بازار میں تقریباً 30 سال سے سنار کا کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملتانی کڑے یا کنگن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ’یہ بڑے استاد حضرات خود بناتے تھے۔ اس میں مشین کا کوئی کام نہیں۔ یہ مکمل طور پر ہاتھوں سے بنتا ہے۔‘
ان کے مطابق ملتانی کنگن کی تیاری کے چار سے پانچ مراحل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں پائپ بنتا ہے، جس کے بعد اسے گولائی میں شکل دی جاتی ہے۔ پھر بیل بوٹوں کا علیحدہ عمل ہے جس کے لیے الگ سے کاریگر موجود ہوتے ہیں۔
’ان کاریگروں کو ہم چیتریرا بولتے ہیں۔ یہ اس پر ہاتھ سے ڈیزائن تراش کر ہمیں دیتے ہیں۔ اس کے بعد بالز جو لگے ہوئے ہیں دو، درمیان میں جو نظر آ رہے ہیں ہم یہ لگاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ لگانے کے بعد اوپر سے نگوں کے لیے جگہ بنتی ہے اس کو بنا کے پھر اسے پالش کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پالش والا اپنا کام کر کے ہمیں واپس بھیجتا ہے۔ پھر یہ جڑائی ہوتی ہے۔ مطلب کہ ایک جوڑی چار سے پانچ دنوں میں مکمل ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سب سے آخری عمل سندور کا ہے، جو دوسرے سونے سے الگ ہوتا ہے۔ کنگن کو لال رنگ کی ریت سے دھونے کے بعد سندور والے بورے میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ خشک ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا اصلی رنگ نکلتا ہے۔
بلال کے مطابق سونے کا ریٹ بڑھنے سے اس کی طلب میں کمی ہوئی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہاتھوں سے تیار زیورات مثلاً ملتانی کنگن، تلسی یا کٹمالہ وغیرہ زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔