ایران کے صدارتی انتخابات میں اب دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور اس مقابلے میں ابراہیم رئیسی سب سے آگے نظر آتے ہیں جو اس وقت ایران کی عدلیہ کے سربراہ ہیں۔
ابراہیم رئیس الساداتی 1960 میں شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور اپنے آبائی شہر میں شیعہ مدرسے میں تعلم حاصل کی۔ یہ ایران میں محمد رضا شاہ کا دور حکومت تھا۔ بعد میں ابراہیم رئیسی قم کے مدرسے چلے گئے۔
1979 میں ایک پرجوش نوجوان کے طور پر انہوں نے انقلاب ایران کی تحریک میں حصہ لیا اور آیت اللہ خمینی کی سیاسی جماعت میں ان کی مدد شروع کر دی۔ انہوں نے کے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور خمینی کے انقلابی نظریات کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا جو ایران کے بانی ہیں۔
جب ابراہیم رئیسی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہر اس آواز کو دبانے میں نہیں ہچکچائیں گے جو ایران کے خلاف اٹھ رہی ہو یا اس کی بقا کے لیے خطرہ ہو تو انہیں 19 برس کی عمر میں کراج کے دفتر استعاثہ میں جج تعینات کر دیا گیا۔ اس وقت ان کی کسی جامعہ سے باقاعدہ تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
صرف ایک برس کے قلیل عرصے میں انہیں کرج کا افسر استغاثہ تعینات کر دیا گیا جو کہ ایران کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کے ساتھ ہی ابراہیم رئیسی کو ملک کے مغربی صوبے ہمدان کا افسر استغاثہ بھی تعینات کر دیا گیا اس طرح انہوں نے ایک ساتھ دو عہدے اپنے پاس رکھے۔
خمینی کے خیال میں رئیسی نے انقلاب ایران کے بعد چند سالوں کے دوران ایک افسر استغاثہ کے طور پر اپنی وفاداری کا ثبوت کامیابی سے دیا تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پر کئی مخالف گروہوں کو خاموش کرایا تھا۔ رئیسی نے بعد میں مزید طاقت حاصل کر لی اور وہ براہ راست خمینی سے رابطے میں رہنے لگے۔
صرف 24 سال کی عمر میں ابراہیم رئیسی کو انقلابی عدالت کے دفتر استغاثہ کا نائب بنا دیا گیا جہاں ان پر دنیا کے سب سے بڑے قتل عام میں ’ڈیتھ کمیشن‘ کے رکن ہونے کی حیثیت سے ملوث ہونے کا الزام بھی لگا۔
1988 کی نسل کش مہم کے دوران تین لاکھ سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا تھا جن میں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل تھیں۔ 2016 کی امریکی قرارداد کے مسودے کے مطابق ’1988 میں چار ماہ کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے وحشیانہ انداز میں ہزاروں سیاسی قیدیوں اور سیاسی گروہوں کا قتل عام کیا تھا۔
ایران ہیومن رائٹس ڈاکومینٹیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق قتل عام اس فتوے یا مذہبی حکم نامے پر عمل درامد کے نتیجے میں کیا گیا جو اس وقت کے رہبر اعلی آیت اللہ خمینی نے جاری کیا تھا۔‘
ایران کے بانیوں میں سے ایک حسین علی منتظری کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ اسلامی جمہوریہ میں 1979 کے انقلاب کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا جرم ہے اور تاریخ اس پر ہماری مذمت کرے گی۔
تاریخ ان کو ایک مجرم کے طور پر جانے گی۔‘ حسین علی منتظری انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے اور اپنی زندگی کے آخر تک خمینی کے جانشین تھے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ لکھتے ہیں کہ منتظری نے رئیسی اور ان کے ساتھیوں سے پھانسیوں کا سلسلہ بند کرنے گزارش کی تھی۔
اپنی یادداشتوں میں انہوں نے لکھا کہ ’وہ حکم محرم میں دیا گیا تھا۔ میں نے نیری، اشراقی، رئیسی اور پورمحمدی سے کہا کہ اب محرم ہے کم از کم محرم میں تو پھانسیاں روک دیں۔
نیری نے مجھ سے کہا کہ ہم اب تک 750 افراد کو تہران میں پھانسی دے چکے ہیں اور 200 کو علیحدہ کر لیا ہے جو اپنے نظریات پر قائم ہیں۔ ہمیں ان سب کو ختم کر لینے دیں بعد میں ہم وہی کریں گے جو آپ کہیں گے۔‘
ایک عشرے تک حزب اختلاف پر کریک ڈاؤن کرنے، خمینی کے احکامات ماننے، پھانسیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ رئیسی نے حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری کے کئی ثبوت دیے اور رہبر اعلیٰ کی جانب سے دی جانے والی سلسلہ وار ترقیوں اور تعیناتیوں کے ذریعے سیاسی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔
رئیسی کو تہران کا افسر استغاثہ، نیشنل ٹیلی ویژن سپروائزری کونسل کا چیئرمین، جنرل انسپیکشن کے دفتر کا سربراہ اور اٹارنی جنرل بنایا گیا۔
جب نام نہاد اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے دفتر سنبھالا تو وہ ریئیسی کے حکومت اور رہبر اعلیٰ سے گہرے تعلقات سے واقف تھے۔ اس کے باوجود رئیسی کو آستان قدس رضاوی فاؤنڈیشن کا سربراہ بنا دیا گیا جس کے اربوں ڈالرز کے محصولات ہیں جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔
حسن روحانی کے دور صدارت میں ڈیتھ کمیشن کے دیگر ارکان کو بھی ترقی دے دی گئی ہے جن میں مصطفی پور محمدی بھی شامل ہیں جو بدنام زمانہ ایون جیل میں انٹیلی جنس منسٹری کے سابق نمائندے تھے۔ انہیں بعد میں انصاف کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔
آخر کار 2019 میں رہبر اعلی علی خامنہ ای نے رئیسی کو حکومت کے عدالتی نظام کا سربراہ بنا دیا۔ اپنی تعیناتی کے بعد ابراہیم رئیسی نے اسلامی پاسداران انقلاب کی 23ویں قومی اسمبلی کے دوران جوانوں اور کمانڈرز سے خطاب کے دوران کہا کہ ’ہم صرف ان لوگوں کی انگلیاں نہیں کاٹیں گے جو بد عنوان ہیں، ہم ان کا پورا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے۔‘
امریکی محکمہ خزانہ نے رئیسی کو 2019 سے اپنی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ قصہ مختصر، کبھی بھی منتخب نہ ہونے والے رئیسی نے ملک کے سب سے اعلی عہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی سخت گیر طبیعت کا استعمال کیا ہے۔
رپورٹ بشکریہ عرب نیوز