پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان گذشتہ چند سالوں خصوصاً کرونا کے دوران غذائی اجناس کو برآمد کرنے کے بجائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی عام اجناس مہنگی ہویی ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، خسرو بختیار اور معاشی ٹیم کے دیگر ممبران کے ساتھ اقتصادی سروے 2020-21 کے اجراء کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران چار فصلوں کی پیداوار اچھی رہی لیکن اس کے باوجود گندم اور چینی کافی بڑی مقدار میں درآمد کی گئی تھی۔ ملک میں افراط زر کی بلند ترین شرح کی وجہ بتاتے ہوئے تسلیم کیا کہ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے پاکستان گندم، چینی، گھی اور چند دالیں بڑی مقدار میں درآمد کر رہا ہے۔
شولت ترین کا کہنا تھا کہ ’جب ہم بڑی تعداد میں غذائی اجناس درآمد کریں گے جو پہلے برآمد کیا کرتے تھے تو ان کی قیمتیں بھی عالمی منڈی کے مطابق ہوں گی اور یہی قیمتیں افراط زر کی وجہ بنی ہیں۔‘
وزیر خزانہ کے مطابق گندم، تیل اور خام تیل کی قیمتیں جس حساب سے عالمی منڈی میں بڑھی تھیں اس حساب سے پاکستان کی حکومت نے اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ بوجھ خود بھی برداشت کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں برھتی ہوئی مہنگائی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے اپنی پیداوار بڑھانی پڑے گی جس کے لیے حکومت نے ٹیکسٹائل، تعمیراتی اور زرعی شعبوں کو مراعات دی ہیں۔
اکنامک سروے رپورٹ پیش کرنے کے دوران شوکت ترین نے کہا کہ وہ حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل پائے گا یا نہیں لیکن انہیں ایف اے ٹی ایف سے مثبت اشارے ملے ہیں۔
شوکت ترین کے مطابق غیر ملکی ترسیلات زر 26 ارب ڈالرز سے تجاوز کرکے 29 ارب ڈالرز تک پہنچ گیے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پاکستان کے روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کی مدد سے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کرونا کی وبا کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے ملک گیر ہاؤسنگ پلان پیش کیا جس سے ملک کی کئی صنعتوں میں جان پڑی اور درجنوں صنعتوں سے وابستہ سیکڑوں ہزار افراد کو روزگار کی امید بندھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق کووڈ کے آغاز میں ملک بھر میں کام کرنے والے پانچ کروڑ 60 لاکھ تھی جو کہ کرونا کی وجہ سے بے روزگاری بڑھنے پر کم ہوکر تین کروڑ 50 لاکھ ہوگئی تھی یعنی تقریباً دو کروڑ افراد ملک بھر سے بے روزگار ہو گئے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتی اقدامات کے باعث اکتوبر 2020 میں بے روز گاری کم ہوئی اور ملازمت پیشہ افراد کی تعداد بڑھ کر پانچ کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
جمعرات کے روز پیش کیے جانے والے حکومت کے اقتصادی سروے کے مطابق موجودہ مالی سال حکومت اہم معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ معاشی ترقی 2.1 فیصد ہدف کے مقابلے 3.94 فیصد رہی، زراعت، صنعت، خدمات کے شعبے میں اہداف حاصل کیے گئے۔
حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے مہنگائی کو 6.5 فیصد پر رکھنے کا ہدف پورا نہیں کیا اور مہنگائی کی اوسط شرح 8.8 فیصد رہی۔ اس کے علاوہ تجارتی خسارہ اور بجٹ خسارہ بھی سارا سال بے قابو رہا اور خود حکومت کے مقررہ ہدف سے زیادہ رہا۔
قومی اقتصادی سروے کے مطابق فصلوں کی پیداوار میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سوائے کپاس کے بڑی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ گنے کی پیداوار 22 فیصد اضافے کے ساتھ 8 کروڑ 10 لاکھ ٹن سے زائد رہی۔ گذشتہ سال گنے کی پیداوار 6 کروڑ 63 لاکھ 80 ہزار ٹن تھی۔
گندم کی پیداوار 8.1 فیصد اضافے سے 2 کروڑ 72 لاکھ 93 ہزار ٹن رہی۔ گذشتہ برس گندم کی پیداوار 2 کروڑ 52 لاکھ 49 ہزار ٹن تھی۔
چاول کی پیداوار 13.6 فیصد اضافے سے 84 لاکھ 19 ہزار ٹن رہی جبکہ گذشتہ برس چاول کی پیداوار 74 لاکھ 14 ہزار ٹن تھی۔
قومی اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال پہلے 9 ماہ میں لارج مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 8.9 فیصد رہی، گاڑیوں کی فروخت ایک لاکھ 51 ہزار یونٹ رہی جبکہ گذشتہ مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں 98 ہزار 986 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔