افغان طالبان نے ترکی کی اس پیشکش کی ’سختی سے مخالفت‘ کی ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی کی حفاظت اور اسے چلانے کے لیے اپنے فوجی روک سکتا ہے۔
واضح رہے کہ افعانستان میں ترکی کے پانچ سو سے زائد فوجی موجود ہیں جو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے نیٹو مشن کا حصہ ہیں۔
اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی بھی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی فوج کو یہاں رکھیں، چاہے وہ امریکہ ہو یا ترکی۔ ہم اس پر متفق نہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’اگر ترکی کی ایسی کوئی نیت ہے تو اسلام امارات (طالبان حکومت کا نام جو وہ اقتدار میں استعمال کرتے تھے) اس کی مخالفت کرے گی، ہم ملک میں کسی بھی غیرملکی فوج کو قبول نہیں کریں گے، چاہے کوئی بھی نام ہو۔‘
’ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ وہ یہاں 20 سال تک رہے ہیں اور جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ انہیں غلطی نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ افغانستان میں اپنی فوج رکھنا چاہتے ہیں تو بغیر کسی شک کے افغان ان کے ساتھ بھی دیگر حملہ کرنے والوں جیسا سلوک ہی کریں گے۔‘
خیال رہے کہ پیر کو ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آکار نے کہا تھا کہ ترکی کی افغانستان میں رہنے کی خواہش ہے مگر اس کا ’انحصار صورتحال‘ پر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترک وزارت دفاع نے حلوصی آکار نے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’صورتحال کیا ہے؟ سیاسی، مالی اور لاجسٹیکل امدد کی۔ اگر یہ سب ہو جاتا ہے تو ہم حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رک سکتے ہیں۔‘
تاہم طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کے مطابق ’اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے غیرملکی افواج کی موجودگی نہ تو قبول کی اور نہ ہی کریں گے۔‘
ڈاکٹر محمد نعیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف افغان کی ہے اور غیرملکی شہریوں کا تحفظ بھی اسلام اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اس ملک کی دمہ داری ہے جہاں وہ رہ رہے ہیں۔‘
ترک حکام کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ کی سکیورٹی کی تجویز کا فیصلہ مئی میں نیٹو کی میٹنگ کے دوران کیا گیا جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بیس سال سے جاری ’افغانستان کے قبضے‘ کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔