خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نے کرونا (کورونا) ویکسین لگوانے سے انکار پر حال ہی میں چھ خواتین اہلکاروں کو معطل کرتے ہوئے ان کی تنخواہیں روکنے کے احکامات جاری کیے، تاہم ویکسینیشن کے بعد انہیں بحال کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ڈی پی او عمران شاہد کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا: ’ان چھ اہلکاروں کو کرونا ویکسین سے انکار پر معطل کیا جائے، ان کو لائن حاضر کیا جائے اور ان کی تنخواہیں بھی روک دی جائیں۔‘
بنوں پولیس کے ترجمان آصف حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذکورہ چھ خواتین اہلکاروں کو کرونا ویکسین لگوانے سے انکار پر معطل کیا گیا تھا تاہم آج (ہفتے) کو ویکسین لگوانے کے بعد انہیں دوبارہ بحال کیا گیا ہے اور وہ اتوار (13 جون) سے ڈیوٹی پر آجائیں گی۔
ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ اہلکاروں کو کس قانون کے تحت معطل کیا گیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’پولیس ایک ڈسپلنڈ فورس ہے اور اس میں سربراہ کے احکامات نہ ماننا جرم ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’چونکہ ان اہلکاروں نے ضلعی پولیس افسر کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ویکسین لگوانے سے انکار کیا تھا، اس وجہ سے ان کو معطل کیا گیا اور اب ویکسین لگوانے کے بعد بحال کردیا گیا ہے۔‘
تاہم قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی معطلی خلاف قانون ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں کرونا کے حوالے سے ایسا کوئی قانون نہیں بنا ہے جس کی بنا پر کسی شخص کو ویکسین لگوانے سے انکار پر معطل کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سول سرونٹس رولز 1973 اور 2011 میں بھی صوبائی حکومت کا قانون موجود ہے، جس میں معطلی کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں ’مس کنڈکٹ‘ کی بات کی گئی ہے، جس کی بنا پر کسی سرکاری ملازم کو معطل کیا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر گگیانی سے جب پوچھا گیا کہ کیا ’خیبر پختونخوا ایپیڈیمک اینڈ ایمرجنسی کنٹرول ایکٹ‘ کے تحت ویکسین سے انکاری لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی؟ تو انہوں نے بتایا: ’اس میں شرط یہ ہے کہ اگر ان اہلکاروں میں کرونا وائرس پایا گیا ہو اور وہ یہ وائرس کسی دوسرے شخص کو منتقل کرنے کے مرتکب پائے گئے ہوں تو ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘
صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گذشتہ برس اسمبلی سے ایپیڈیمک کنٹرول اینڈ ایمرجنسی ایکٹ منظور کروایا تھا، جس میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا بھی ذکر ہے، تاہم اس ایکٹ میں ویکسین نہ لگوانے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
اس ایکٹ کی شق نمبر 17 کے مطابق اگر کسی شخص نے حکومتی احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس میں زیاہ سے زیادہ 50 ہزار روپے جرمانہ اور زیاہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا شامل ہے۔
اس قانون میں قرنطینہ سے فرار، بغیر کسی وجہ کے ہجوم اکھٹا کرنا، جس سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ موجود ہو اور حکومتی ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں مقرر کی گئی ہے۔
اسی طرح شبیر گگیانی نے 2011 کے قانون خیبر پختونخوا سرونٹس (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن) رولز کا ذکر کیا، جس کے تحت کسی سرکاری ملازم کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔
اس قانون کی شق نمبر تین کے مطابق ایسے ملازمین جو کسی بھی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہوں، ڈیوٹی سے بغیر کسی وجہ سے غیر حاضر رہے ہوں، کرپشن کے مرتکب پائے گئے ہوں یا انہوں نے ’مس کنڈکٹ‘ کیا ہو، کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پولیس فورس کے معاملات چلانے کے لیے 2017 میں ایک الگ قانون بھی بنایا گیا ہے تاہم اس قانون میں بھی ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت کسی پولیس اہلکار کو مس کنڈکٹ، ڈیوٹی میں غفلت برتنے یا بزدلی دکھانے پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس قانون بھی اس قسم کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے کہ کسی اہلکار کو ویکسین لگوانے سے انکار پر معطل کیا جا سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بھی ابھی تک کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں یا ان سے انکاری لوگوں کے خلاف کسی کارروائی کرنے کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے کرونا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔
حکومت کا موقف
اس معاملے پر خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ایسا کوئی فیصلہ یا ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں کہ کسی بھی شخص کو کرونا ویکسین لگوانے سے انکار پر معطل کیا جائے یا ان کی تنخواہ روک دی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ بنوں واقعے میں پولیس نے اپنی طرف سے ان اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی ہے۔
کامران بنگش نے بنوں پولیس اہلکاروں کے معطلی پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’محکمہ پولیس نے اپنی طرف سے ایک میکنزم بنایا ہوا ہے اور پولیس فورس کے لیے ویکسینیشن سینٹرز قائم کیے ہیں تاکہ تمام پولیس فورس کو بروقت ویکسین لگائی جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر فورس کے اہلکاروں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ فلاں تاریخ کو کرونا ویکسین لگائیں اور اس تمام عمل کی سربراہی ضلعی پولیس سربراہ کے ذمے ہے۔
تاہم کامران بنگش کے مطابق مذکورہ چھ اہلکاروں نے اپنے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا تھا اور کرونا ویکسین لگوانے سے انکار پر انہیں معطل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا: ’کرونا ویکسین نہ لگوانے والے اہلکار پولیس فورس کے اندر باقی اہلکاروں کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں اور چونکہ پولیس کا عوام کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے تو ویکسین نہ لگوانے والے اہلکاروں سے عوام کو بھی کرونا وائرس کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘
کامران بنگش نے مزید بتایا کہ پولیس فورس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ 20 جولائی تک فورس کے تمام افراد کو کرونا ویکسین لگا کر انہیں وائرس سے محفوظ ہو سکے۔