مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کیا جاچکا ہے، جس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’ایسا بجٹ لا رہے ہیں کہ سب خوش ہوجائیں گے۔‘ اب یہ بات کتنی درست ثابت ہوئی اور کیا واقعی سب خوش ہوئے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کے لیے پاکستان سٹاک مارکیٹ کا رخ کیا۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں سٹاک بروکر ولید حسن نے بتایا: ’بجٹ تقریر مکمل ہونے تک سٹاک مارکیٹ تو بند ہوچکی تھی لیکن اس سال کا بجٹ دیکھنے کے بعد سٹاک مارکیٹ کے زیادہ تر لوگ خوشی خوشی گھر گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’بجٹ پیش ہونے سے قبل مارکیٹ کے بڑے تاجروں کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی اندرونی معلومات مل چکی تھیں، جیسے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز میں سرمایہ کاری کی خبرآنے کے بعد پی آئی اے کےحصص کی قیمت ساڑھے پانچ سے ساڑھے چھ پر پہنچ گئی۔ بجٹ اس بار سب کے لیے اچھا آیا ہے، اس سے کافی شعبوں کو مدد ملے گی۔ سٹاک مارکیٹ کے تمام چھوٹے بڑے تاجروں میں اعتماد آگیا ہے اور اگلے دو سے تین ماہ میں مارکیٹ 100 انڈیکس پر 50 ہزار سے 53 ہزار تک کاروبار کرتی نظر آئے گی۔‘
جمعہ (11 جون) کو کاروباری ہفتے کے پانچویں روز سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان تھا اور کے ایس ای 100 انڈیکس 53 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 48304.72 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔ اس روز 48.42 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہوا جبکہ سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔
مارکیٹ کی صورت حال کے حوالے سے سٹاک مارکیٹ میں ریٹیل ٹریڈر شعیب قادری نے بتایا: ’اس بجٹ نے دکھا دیا ہے کہ ہماری معیشت کا رخ کس طرف ہے۔ پوری دنیا میں جب بھی کسی معیشت کی سمت نظر آنا شروع ہوجائے تو لوگوں کے لیے سرمایہ کاری کرنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس بجٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان میں انویسمنٹ کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ اگر سرمایہ کار ابھی آئیں گے تو آگے چل کر انہیں اس کے پھل ملیں گے۔ ہماری مقامی انڈسٹری میں بھی بہت بڑا بوم نظر آنے کا امکان ہے۔‘
شعیب قادری نے مزید بتایا: ’وفاقی بجٹ کا اعلان ہونے سے چند دن قبل ہی مارکیٹ میں ہل چل مچی ہوئی تھی اور اچھی اور بری خبریں گردش کر رہی تھیں، جس سے کئی سرمایہ کار کنفیوز ہو کر غلط فیصلے لے رہے تھے لیکن کچھ سرمایہ کار کافی پر اعتماد تھے، مگر دو تین دنوں سے مارکیٹ میں کافی تیزی کا رجحان تھا اور ہمیں امید تھی کہ مارکیٹ اوپر جائے گی اور ہنڈرڈ انڈیکس پر 50 ہزار پوائنٹس کراس کرے گی۔‘
انہوں نے بتایا: ’بجٹ آنے کے بعد جب مارکیٹ بند ہوئی تو یہ دیکھا گیا کہ انفرادی سرمایہ کاروں (Individual investors) کا رجحان زیادہ تر فروخت پر رہا جبکہ بڑی کمپنوں اور فنڈز کا رجحان خریدنے پر رہا۔ انفرادی سرمایہ کاروں نے یہی سوچا کہ اگر بجٹ برا آیا تو مارکیٹ اگلے کاروباری دن منفی رہے گی اور ہمیں نقصان ہوگا، لیکن بجٹ ہماری توقعات کے حساب سے اچھا آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس بجٹ کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ پاکستانی حکومت اب ملک کی معیشت پر توجہ دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹو سیکٹر میں بھی مزید سرمایہ کاری اور فروخت کا امکان ہے کیوں کہ نئی پالیسیوں کے بعد 850 سی سی اور اس سے کم کی گاڑیوں میں تقریباً 90 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا فرق آجائے گا۔‘
دوسری جانب سٹاک ایکسچینج کے ایک رکن شہزاد مٹھانی نے ’اچھا بجٹ‘ آنے کے باوجود بھی تھوڑا محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کے مطابق: ’مارکیٹ میں اچھی اور بری خبروں کا بہت اثر پڑتا ہے۔ اکثر اچھی خبریں آنے کے باوجود بھی مارکیٹ کا رجحان منفی رہتا ہے اور کچھ ہفتے بعد ہی مارکیٹ اسے مثبت انداز میں قبول کرتی ہے۔ میرے حساب سے اس بجٹ کے بعد اچھے اثرات مرتب ہونے چاہییں، پھر بھی نئے کاروباری ہفتے کے رجحان کو دیکھ کر ہی یہ بتایا جاسکتا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کو آخر اس نئے بجٹ نے فائدہ پہنچایا ہے یا نقصان۔‘
گذشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں اس سال کے وفاقی بجٹ کے بعد مارکیٹ کی صورت حال میں فرق کے حوالے سے سوال کے جواب میں ریٹیل ٹریڈر شعیب قادری کا کہنا تھا کہ ’پچھلے بجٹ میں بہت ساری چیزیں واضح نہیں ہوپائی تھیں اور اس وقت پاکستان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ ٹیکسز میں اتنا ریلیف دیتے یا مختلف شعبوں میں اتنی سرمایہ کاری کرتے۔ سٹاک مارکیٹ میں بھی اس قدر مندی ہوگئی تھی کہ مزید مندی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن اس بجٹ کے بعد یہ صورت حال نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس بجٹ کے بعد اگلے بجٹ تک ہم ڈالر کی قدر میں کمی بھی دیکھیں گے۔‘
اس حوالے سے سٹاک مارکیٹ کے رکن شہزاد مٹھانی نے بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’پچھلا بجٹ کووڈ بجٹ تھا جو اس وقت آیا تھا جب کرونا کی وجہ سے پاکستانی معیشت کا حال بہت برا تھا۔ اس وقت مارکیٹ 100 انڈیکس میں 27 ہزار پوائنٹس تک گر گئی تھی۔ مارکیٹ اتنی گر چکی تھی کہ مزید اور گرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ انٹریسٹ ریٹ بھی 30 سے گر کر سات پوائنٹس پر آگیا تھا۔ مارکیٹ اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر تھی، اس وقت چاہے جیسا بھی بجٹ آتا وہ مارکیٹ میں ٹھہر نہیں سکتا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’لیکن اس بار جو بجٹ آیا ہے وہ سٹاک مارکیٹ میں 48 ہزار پوائنٹس کے لیول پر آیا ہے۔ اس وقت ہماری مارکیٹ عمران خان حکومت کی بلند ترین سطح پر ہے۔ 2018 سے لے کر اب تک مارکیٹ میں بہت بڑے بڑے اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تھی تو 100 انڈیکس 47 ہزار کی سطح پر تھا، پھر 27 ہزار ہوا، پھر 36 ہزار، پھر 28 ہزار اور اب جا کر مارکیٹ تین سال پہلے والی حالت میں واپس آئی ہے اور 48 ہزار پر کاروبار کر رہی ہے۔ اب اس بجٹ کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ دو دن کے اندر اندر مارکیٹ 50 ہزار تک ضرور پہنچے گی۔ امید ہے کہ اس بجٹ کے بعد مارکیٹ ریکارڈ توڑ کاروبار کرے گی۔‘