ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری بین الاقوامی مذاکرات میں شریک تہران کے چیف مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ ملک میں 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل اس ہفتے کسی حتمی معاہدے کے طے پا جانے کے امکانات نہیں۔
ٹوئٹر پر جاری ایک بیان کے مطابق آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری مذاکرات کے بعد روس کے نمائندے کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے، جن کے مطابق معاہدے کے موجودہ متن کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید چند ہفتوں کی ضرورت ہے۔
ویانا میں مذاکرات کا چھٹا دور دوبارہ شروع ہونے کے بعد ایران کے چیف مذاکرات کار عباس عراقچی نے ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا: ’ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس ہفتے (معاہدے کے حوالے سے) کسی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔‘
ایران میں 18 مئی کو نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے جہاں عوام صدر حسن روحانی کے جانشین کا انتخاب کریں گے جو ملکی قانون کے مطابق دو مسلسل مدت پوری کرنے کے بعد ان انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں۔
متعدد تجزیہ کار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن ختم ہونے سے پہلے ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی معاہدہ طے پانے کا امکان نہیں۔
ویانا میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کر رہے ہیں تاکہ امریکہ کو جوہری معاہدے میں واپس اور تہران کو اس کی تعمیل کا پابند بنایا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ اقدام کرتے ہوئے اس معاہدے سے امریکہ کو نکال کر ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔
تب سے ان کے پیشرو باراک اوباما کی جانب سے 2015 میں دستخط کیے جانے والا یہ تاریخی معاہدہ عملی طور پر جمود کا شکار ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں تہران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو تیز کر دیا۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن ایران کی جانب سے اپنے وعدوں کا احترام کرنے پر راضی ہونے کی صورت میں اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے پر آمادگی کا اشارہ دے چکے ہیں۔
ویانا میں یورپی یونین کی زیر صدارت ہونے والی بات چیت میں امریکہ کے مذاکرات کار بالواسطہ حصہ لے رہے ہیں۔