افغانستان کے مسئلے پر نیٹو ممالک کا سربراہ اجلاس پیر (14 جولائی) کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں واقع نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں ہو رہا ہے، جس میں امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کے سربراہان افغانستان کو ’علامتی طور پر‘ خیرباد کہیں گے۔ اس کے بعد طویل ترین امریکی جنگ اپنے اختتام کو پہنچے گی جبکہ امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اجلاس میں ان سوالات پر ازسرنو غور کیا جائے گا کہ آیا (افغانستان میں) نیٹو کے سب سے زیادہ پرجوش آپریشن کی ضرورت تھی بھی یا نہیں؟
براؤن یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں 18 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں امریکہ کو 2.26 کھرب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑے جبکہ 2442 امریکی اور1144 اتحادی فوجی ہلاک ہوئے۔ جنگ کے دوران 47 ہزار افغان شہری، 69 ہزار تک قومی مسلح افواج اور پولیس اہلکار اور 51 ہزار سے زیادہ عسکریت پسند مارے گئے۔
2001 میں امریکہ کی سربراہی میں قائم اتحاد نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دینے پر افغانستان میں طالبان حکومت ختم کر دی تھی، جس کے بعد لڑائی کا آغاز ہوا۔
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں یورپ پروگرام کے ڈائریکٹر ایرک بریٹبرگ کے مطابق: ’اس موقعے پر آپ کو یہ تاثر ملتا ہے کہ نیٹو رہنما اس معاملے میں کوئی بڑا معاہدہ کیے بغیر معاملے کو تقریباً دبا کر اور خاموشی سے نکل جانا چاہتے ہیں اور وہ اپنی توجہ دوسرے معاملات پر مرکوز کرنے جا رہے ہیں۔‘
افغانستان سے انخلا امریکی قیادت میں ہو رہا ہے اور اس کے یورپی اتحادی اور کینیڈا جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ان کے سفارت خانوں، نقل وحرکت کے بڑے راستوں اور سب سے بڑھ کر دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے جوبائیڈن کی سوچ کیا ہے۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ آیا افغان حکومت دوبارہ طاقت پکڑنے والے طالبان کا مقابلہ کر پائے گی؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کابل کا گھٹنے ٹیک دینا محض تھوڑے وقت کی بات ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسپ بوریل کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم افغانستان میں جاری اپنی سفارتی موجودگی کے لیے ضروری حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی کے معاملے میں اپنے رکن ملکوں امریکہ، نیٹو اور اقوام متحدہ کے ساتھ پوری شدت سے بات چیت کر رہے ہیں۔‘
اس وقت نیٹو کا منصوبہ ہے کہ افغانستان میں حکومتی اداروں کی تشکیل میں مدد کے لیے سویلین مشیروں کو وہاں چھوڑ دیا جائے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی حفاظت کون کرے گا؟ 30 ملکوں پر مشتمل اتحاد یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ آیا افغان سپیشل فورسز کو بیرون ملک لے جا کر تربیت دی جائے یا نہیں۔ ایک تنظیم کے طور پر نیٹو اپنی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی اور معمول کے مطابق ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، تاہم نیٹو کے رکن بعض ممالک انفرادی طور پر ان افغان شہریوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ کا کہنا ہے کہ ’یہ وقت بس افغانستان سے نکلنے کا ہے۔‘
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’نہ صرف جہاں تک مضبوط اور باصلاحیت سکیورٹی فورسز کی تیاری کا تعلق ہے بلکہ معاشی و معاشرتی ترقی کے میدان میں بھی افغانستان نے ایک طویل سفر کیا ہے۔ ایک موقعے پر افغان شہریوں کو اپنے ملک میں امن واستحکام کی مکمل ذمہ داری لینی ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بہت کم افغان اپنے ملک کے بارے میں اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں، جہاں غربت کی شرح 54 فیصد ہے۔ جرائم اور بدعنوانی عام ہیں اور غیرقانونی معیشت نے قانونی معیشت پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔‘
جب 2003 میں نیٹو نے انٹرنیشنل سکیورٹی آپریشنز کی ذمہ داری سنبھالی تھی تو اس وقت افغانستان، یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر اس کا پہلا بڑا مشن تھا، جس کا مقصد حکومت کو مستحکم کرنا، مقامی سطح پر سکیورٹی فورسز کی تشکیل اور انتہا پسند گروپوں کے ممکنہ ٹھکانے کا خاتمہ تھا، تاہم 18 سال گزرنے کے بعد بھی بہت سے افغانوں کے لیے سلامتی کی صورت حال بہت خراب ہے۔ دارالحکومت کابل میں جرائم پیشہ گروہ عام ہیں جن میں بہت سارے گینگز کا تعلق طاقتور جنگجو سرداروں سے ہے جبکہ طالبان کی جانب سے حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔
کارروائیوں کے بالکل آغاز میں جب لڑائی کے نتیجے میں نیٹو فوجیوں، انتہا پسندوں اور شہریوں کا جانی نقصان ہوا تو اس کے نتیجے میں تعطل پیدا ہوگیا۔ طالبان کو دور دراز کے علاقوں سے ختم نہیں کیا جاسکا تاہم ان کے جنگجو بڑے شہروں پر قبضہ بھی نہیں جما سکے۔
دوسری جانب فوج کی تعداد میں اضافے سے معمولی فرق پڑا اور جلد ہی واضح ہوگیا کہ نیٹو کی افغان فوج کو تربیت دینے کا عمل اس کی افغانستان سے واپسی کی حکمت عملی ہے۔ نیٹو صرف ایک ایسی بڑی فوج کی تشکیل کی صورت میں ہی اپنی کارروائیاں ختم کرسکتی تھی جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو، لیکن بدعنوانی، فوجیوں کے بھگوڑے ہو جانے اور اخلاقی پستی نے فوج کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے اور بڑی تشویش کی بات ہے کیونکہ نیٹو کا اصرار ہے کہ اس کے انخلا کے بعد افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو فند ز فراہم کیے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکم مئی تک انخلا کے یکطرفہ فیصلے نے امریکی اتحادیوں کو حیران کر دیا تھا۔ اس سے نیٹو کی کمزوری واضح ہوئی۔ بات صاف ہے کہ یورپی ممالک اور کینیڈا اپنے سب سے بڑے پارٹنر امریکہ کے بغیر بڑی کارروائیوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ فراہم نہیں کرسکتے۔ نائن الیون کے حملوں کے 20 سال مکمل ہونے تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بائیڈن کے فیصلے میں معمولی تبدیلی آئی ہے تاہم اس بار انہوں نے اتحادیوں سے مشاورت کی ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر جیمز ڈوبنز اب رینڈ کارپوریشن تھنک ٹینک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا مطلب امریکی حکومت کی ساکھ کا خاتمہ ہوگا۔ ایک مضمون میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’امریکی انخلا کو طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست کے طور پر دیکھا جائے گا۔ نتیجے کے طور پر امریکی ساکھ اور کسی دوسری جگہ امریکی یقین دہانی کی اقدار کو دھچکہ لگے گا اور مقابلے کی صلاحیت کی کمزوری سامنے آئے گی۔‘
پیر کو نیٹو رہنما اپنے اتحاد کی مضبوطی اور اس جانب واپسی کے فیصلے کی توثیق کریں گے، جسے وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں یعنی پرانے دشمن روس کی طرف واپسی۔ امریکی صدر جو بائیڈن روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات سے پہلے اتحادیوں کو بریفنگ دیں گے جبکہ افغان صدر اشرف غنی کو نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
بریٹبرگ کا کہنا ہے کہ ’افغانستان پر رقم خرچ کرتے رہنے کی تھوڑی سی خواہش باقی بچی ہے۔ نیٹو میں شامل بہت سے ملک اکتا چکے ہیں اور اب وقت آ چکا ہے کہ بس سامان باندھا جائے اور ان نتائج کی معمولی پروا کرتے ہوئے افغانستان چھوڑ دیا جائے جو واقعی سامنے آ سکتے ہیں۔‘