سوشل میڈیا پر ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’وہ کیا ہے‘ کا ایک ویڈیو کلپ ان دنوں وائرل ہے، جس میں سکرین پر مبینہ طور پر ایک چڑیل کو دکھایا گیا ہے۔ فیس بک پر اس ویڈیو کو 13 ملین سے زائد مرتبہ دیکھا جاچکا ہے۔
ویڈیو کی تفصیل میں سکرین پر نظر آنے والے کردار کو چڑیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ویڈیو پر عبارت درج ہے: ’چڑیل پر سمندر کا پانی پھینکنے کے بعد خوفناک منظر۔‘
اس ویڈیو میں ’چڑیل‘ کے ہاتھ میں کلہاڑی بھی دکھائی دیتی ہے جس پر پروگرام کے میزبان اس سے گفتگو بھی کرتے نظر آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ ’دور رہ کر بات کرو ہم صرف بات کرنے آئے ہیں۔‘
اس دوران جب وہ مبینہ چڑیل ٹیم کے قریب آتی ہے تو پروگرام اینکر ہاتھ میں پکڑی بوتل (جسے وہ سمندر کا پانی کہتے ہیں) اس پر پھینک دیتے ہیں جس پر وہ مبینہ چڑیل وہاں سے بھاگ جاتی ہے۔
شو کا یہ مخصوص حصہ وائرل تو ہو چکا ہے اور صارفین اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ واقعی کوئی چڑیل ہے۔ کچھ لوگ اسے ’ناقص اداکاری‘ قرار دے رہے ہیں تو کوئی ’چڑی‘ کی آواز کو مردانہ قرار دے کر اسے رد کر رہا ہے۔
اس شو میں دکھائے جانے والے مواد کے بارے میں جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ڈویلپمنٹ ہیڈ کاشف سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میں نے اب تک یہ پروگرام نہیں دیکھا، اس کے اصل ہونے یا ڈرامہ ہونے پر میں بات نہیں کر سکتا۔‘
مذکورہ پروگرام کی حقیقت جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق میں سامنے آیا کہ وائرل ہونے والے کلپ کے علاوہ اسی کردار کی دو اور ویڈیوز بھی یوٹیوب پر موجود ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی چڑیل نہیں بلکہ ایک شخص ہے جو مقامی افراد کو چڑیل بن کر تنگ کرتا ہے۔
’معلوم تھا کہ یہ چڑیل نہیں‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جب مذکورہ ویڈیو کے حوالے سے پروگرام کے میزبان ساجد سلیم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس پروگرام کو غلط عبارت سے شیئر کیا گیا۔ وہ کوئی چڑیل نہیں بلکہ نفسیاتی مریض تھا۔‘
ساجد سلیم نے مزید بتایا کہ انہوں نے چینل انتظامیہ کو بھی بتایا تھا کہ اس پروگرام کی عبارت درست نہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں پروگرام ریکارڈ کرنے سے قبل معلوم تھا کہ یہ کوئی چڑیل نہیں بلکہ نفسیاتی مریض ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’انہیں معلوم تھا کہ یہ چڑیل نہیں۔‘
مبینہ چڑیل پر پانی پھینکنے کے حوالے سے سوال پر پروگرام میزبان نے بتایا کہ وہ ’صرف احتیاط کے طور پر پانی ساتھ لے کر گئے تھے۔‘
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چینل کو معلوم تھا کہ یہ کوئی چڑیل نہیں تو پھر سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں اسے چڑیل بنا کر کیوں پیش کیا گیا۔
پاکستان میں مختلف چینلز میں پروگرامنگ کے شعبے سے منسلک رہنے والے ایک سینیئر پروڈیوسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس طرح کے 80 فیصد شوز جھوٹے ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کافی دور سفر کرکے جانے کے بعد اگر وہاں کچھ نہ ملے تو پروگرام ریکارڈ کیے بغیر واپس آنے کی بجائے خود ہی نائٹ ویژن کیمرہ لگا کر، کیمرے کو ہلا کر ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہاں کوئی چیز موجود ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ہارر شوز کرنے والے ایک اینکر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس طرح کے بیشتر شوز ڈرامہ ہوتے ہیں کیوں کہ لازمی نہیں کہ جہاں بتایا جائے یہاں جنات ہیں، وہاں جانے پر وہ ظاہر بھی ہو جائیں، لہذا اتنا خرچہ کرکے جانے کے بعد چینل کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔ اس لیے پھر سکرپٹڈ شو کیے جاتے ہیں اور ایسے جعلی ہارر شوز پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں دیسی انداز میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں جو کامیڈی بن جاتے ہیں۔‘
نیوز چینلز پر چلنے والے ایسے مواد کے بارے میں جب صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ کلپ تو نہیں دیکھا لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری صحافتی اپروچ ہی نہیں رہی کہ کون سی خبر جانی چاہیے اور کون سی نہیں۔ بس چینلز کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مظہر عباس نے کہا کہ ’ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے غلط خبریں بھی چلتی ہیں، غلط پروگرام بھی چلتے ہیں۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی بدقسمتی سے کوئی کوشش نہیں کر رہا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حالات حاضرہ کے پروگرام ہوں یا کرائم شوز یا پھر ڈرامہ، ان سب میں جو مسائل ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں ہے۔‘