گذشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سماعت ہوئی جس میں انہوں نے کراچی میں کڈنی ہل پارک، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے آفس اور دیگر تعمیرات اور الہ دین پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور پویلین اینڈ کلب سمیت تمام تجاوزات دو روز میں گرانے کا حکم دیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ لوگوں نے غیرقانونی طور پر زمین کو تبدیل کرکے کمرشل بنادیا ہے لہٰذا پولیس اور رینجرز کی مدد سے فوری کارروائی کی جائے۔ پارک کو فوری اصل شکل میں بحال کیا جائے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے الہ دین پارک سے متصل شاپنگ ایریا، فوڈ سینٹر اور پویلین اینڈ کلب گرانے کے معاملے پر آج صبح تحریری فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات مسمار کرکے ملبہ فوری ہٹایا جائے جبکہ ایڈمسنٹریٹر کے ایم سی اور کمشنر کراچی دو روز کے اندر کارروائی مکمل کریں۔
عدالت نے انتظامیہ کو16جون کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
تاہم آج صبح نو بجے سے کراچی کے علاقے گلشن اقبال راشد منہاس روڈ پر واقع الہ دین پارک پر کئی دکان دار اور علاقے کے رہائشی پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین اپنے دکانوں کے کاغذات لیے توڑ پھوڑ رکوانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مظاہرے میں شامل الہ دین شانگ سینٹر کے ایک دکان دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مارکیٹ میں میرے والد صاحب کی شاپ تقریبا 20 سال سے ہے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد اس دکان کو میں سنبھال رہا ہوں۔ مجھ سے چھوٹے میرے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ میں اپنے گھر کا خود کفیل ہوں۔ اگر یہ لوگ اس دکان کو توڑ دیں گے تو میرے گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟ کیا سپریم کورٹ اس کے بدلے ہمیں اور دکانیں دے گی یا ہمیں کسی قسم کا ہرجانہ دیا جائے گا؟‘
احتجاج کے دوران تمام مظاہرین ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر نعرے لگارہے تھے لیکن کچھ افراد احتجاج کے اطراف جمع ہونے والی بھیڑ میں موجود تھے جو شاپنگ سینٹر پر موجود لیبر اور مزدوروں کو دیواریں توڑنے سے روک رہے تھے ۔
احتجاج کے تقریبا تین گھنٹوں بعد انہی افراد کی پولیس سے جھڑپ ہوگئی اور پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ اس دوران پولیس کی ایک بھاری نفری نے پر امن مظاہرین پر بھی دھاوا بول دیا اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی۔ مظاہرین میں عورتیں اور لڑکیاں بھی موجود تھے لیکن لاٹھی چارج کے وقت خواتین کانسٹیبل دور دور تک نظر نہیں آئیں۔
کئی احتجاجی پولیس کے ڈنڈے سے بچنے کے لیے الہ دین پارک شاپنگ سینٹر کے اندر جا کر چھپ گئے ۔ جنہیں پولیس نے جبراً باہر نکالا۔ کئی مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔
الہ دین شاپنگ سینٹر کے اندر کافی دکان دار اپنی دکانوں کے باہر کھڑے ہو کر پولیس سے درخواست کر رہے تھے کہ انہیں اپنی دکانوں میں سے سامان نکالنے کا وقت دیا جائے۔ ایک دکان دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری دکان کا نمبر جی ون سکس ہے. ہم تو یہاں اپنا سامان نکالنے آئے تھے لیکن توڑنے سے پہلے ہمیں اپنی دکانیں خالی کرنے کی مہلت تک نہیں دی گئی۔ ہمیں دکان خالی کرنے کا کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ ہم اپنی سامان پیک کر رہے ہیں تو ہمیں سامان پیک کرنے کا وقت بھی نہیں دیا جارہا۔‘
اسی طرح ایک سحر نامی خاتون دکان دار کا کہنا تھا کہ ’میری یہاں تین دکانیں ہیں۔ ہمیں توڑ پھوڑ سے پہلے سپریم کورٹ کا آرڈر بھی نہیں دکھایا گیا۔ میں یہاں صبح سے موجود ہوں۔ انہوں نے اچانک سے شیلنگ کردی اور ہمیں ڈنڈے مارے۔ میرے ساتھ ساتھ اور بھی خواتین پر بھی ہاتھ اٹھایا ہے۔ شیلنگ سے میری آنکھیں جلنے لگیں تھیں۔‘
تاہم اس آپریشن کی نگرانی کرنے والے سینئر ڈائریکٹر انکروچمنٹ بشیر صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’2018 سی پی نائن میں پہلے سے یہ آرڈر ہے کہ کسی بھی پارک، ایمینٹی پلاٹ ، گراؤنڈ یا فٹ پاتھ پر کسی بھی قسم کی کمرشل ایکٹیویٹی نہیں ہوگی۔ الہ دین پارک اور پویلین کلب کے پاس پچھلے پچیس سالوں سے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سٹے آرڈر تھا۔ سپریم کورٹ نے کل اس سٹے آرڈر کو ہٹایا کر ان تجاوزات کو گرانے کا حکم دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہیں 2018 سے کہہ رہے ہیں کہ اس جگہ کو خالی کردیں۔ یہ ایک پارک ہے، اس کو عام عوام کے لیے کھولا جائے گا، یہاں کسی بھی قسم کی کمرشل ایکٹیویٹی نہیں ہو سکتی۔ پویلین کلب تقریبا 10 سے 12 ایکڑ کی زمین پر بنا ہوا ہے۔ انہوں نے یہاں کے ایم سی کی 450 دکانیں بیچ دی ہیں۔ یہ یہاں کے مالکان نہیں ہیں۔ انہیں یہ جگہ کے ایم سی نے ٹھیکے پر دی تھی تاکہ یہاں پارک چلایا جاسکے لیکن ان ٹھیکے داروں نے یہ دکانیں بھی بیچ دیں، پویلین اینڈ کاایک کلب بھی بنا دیا اور شاپنگ سینٹر بھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے جب سینئر ڈائریکٹر انکروچمنٹ بشیر صدیقی سے پوچھا کہ کیا ان دکان داروں کو کوئی دوسری جگہ فراہم کی جائے گی یا حرجانہ دیا جائے گا تو ان کا کہناتھا کہ ’یه قبضہ گروپ ہے، انہوں نے پچھلے پچیس سالوں سے حکومت کو کوئی ریکوری کے پیسے نہیں دیے۔ ان کو پیسے دینے چاہیے ہیں گورنمنٹ کو نہ کہ گورنمنٹ ان کو دے۔‘
یاد رہے کہ الہ دین شاپنگ سینٹر اور پویلین اینڈ کلب سن 1999 میں تعمیر ہوا تھا۔ شاپنگ سینٹر میں 450 سے زائد دکانیں تعمیر تھیں جبکہ صرف 350 دکانیں آپریشنل تھیں۔
پویلین اینڈ کلب 35 ایکڑ کی اراضی پر بنا ایک تفریحی کلب ہے جہاں کرکٹ پچ، سوئمنگ پول، سکواش کورٹ، جمنیزیم، گیمنگ زون ، کھانے کے مختلف ہوٹل اور دیگر سہولیات موجود تھیں۔ اس بڑے پراجیکٹ میں پویلین کلب کے علاوہ الہ دین پارک، الہ دین شاپنگ سینٹر اور فوڈ سینٹر، سپر سپیس اور باؤنس بھی شامل ہیں۔ یہ کراچی کی مشہور ترین تفریح گاہیں ہیں ۔ کراچی میں فی الحال اس پراجیکٹ کے علاوہ اور کوئی اس طرز کا وسیع پراجیکٹ نہیں جہاں مڈل کلاس افراد کم قیمت میں تفریح کے ساتھ ساتھ اسپورٹس، شاپنگ اور کھانا پینا ایک ہی جگہ کر سکیں۔