لاہور کے چڑیا گھر میں 18 مئی کو ایک شیرنی نے پانچ بچوں کو جنم دیا اور ان سے لاتعلق ہوگئی یا یوں کہیے کہ بچوں کو جنم تو دے دیا لیکن انہیں قبول نہیں کیا۔ اس بات کا علم کسی کو کانوں کان نہیں ہوا کہ چڑیا گھر میں پانچ نئے مہمان آئے ہیں۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم (جے ایف کے) کی روح رواں ضوفشاں انوشے نے چند روز قبل انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کیا اورلاہور چڑیا گھر میں پانچ بچوں کی پیداش کے بارے میں بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے بچوں کو ماں سے الگ کرکے سانپ گھر کے پیچھے کسی کمرے میں چھپایا ہوا ہے۔
ضوفشاں نے الزام لگایا کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ان بچوں کو اس لیے چھپایا ہے کیونکہ ان کے زندہ بچ جانے کی امید کم ہے۔
ضوفشاں کے مطابق: ’چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انہیں بتایا ہے کہ شیرنی دودھ نہ اترنے کی وجہ سے بچوں کو دودھ نہیں پلا پا رہی تھی، اس لیے انہیں ماں سے الگ کیا گیا تھا۔‘
بقول ضوفشاں: ’اگر شیرنی کا دودھ نہیں اترا یا خشک ہوگیا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے پوری غذائیت نہیں مل رہی تھی۔‘
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن کا خیال ہے کہ لاہور کے چڑیا گھر کا ان بچوں کے حوالے سے کوئی اور اردہ تھا، تب ہی انہیں میڈیا اور عوام سے چھپایا گیا جبکہ شیرنی کو واپس پنجرے میں عوام کا دل بہلانے کے لیے ڈال دیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر لاہور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ کا موقف معلوم کرنے کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم سے رابطہ کیا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’شیرنی نے پانچ بچے دیے تھے جن میں سے دو کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ایک بچہ مرا ہوا پیدا ہوا تھا جبکہ دوسرا پیدائش کے کچھ دیر بعد چل بسا۔ اس وقت شیرنی کے تین بچے چڑیا گھر میں قائم جانوروں کے انتہائی نگہداشت والے کمرے میں ہیں جہاں ان جانوروں کو رکھا جاتا ہے جو بیمار ہوں اور انہیں مسلسل علاج کی ضرورت ہو۔‘
کرن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی خاتون آئی تھیں جو خود کو اینیمل ریسکیوور (جانوروں کی جان بچانے والی) بتا رہی تھیں۔ بقول کرن: ’میں نے انہیں سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گلیوں اور سڑکوں سے جانور اٹھا کر پالنا اور شیر کے بچوں کو پالنا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شیرنی نے پیدائش کے فوراً بعد بچوں کو چھوڑ دیا تھا، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا دودھ خشک ہو چکا تھا، اسی لیے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ان بچوں کو الگ کمرے میں منتقل کرنا مناسب سمجھا ورنہ وہ مر جاتے۔
لاہور کے چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے بتایا کہ ’فی الحال تینوں بچے بیمار ہیں کیونکہ ان کے دانت نکل رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیٹ خراب ہیں لیکن چڑیا گھر میں موجود ویٹنری ڈاکٹر ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز کے ڈاکٹروں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے پاس 24 گھنٹے ایک اٹینڈنٹ اور ایک ڈاکٹر موجود ہوتا ہے۔ کرن نے ان شیروں کی ایک ویڈیو اور کچھ تصاویر بھی انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کی ہیں۔
کیا شیرنی کا بچے قبول نہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے؟
کرن سلیم کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلی بار نہیں ہے کہ شیرنی نے اپنے ہی بچوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو بلکہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اور اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر شیرنی خوف کھا جائے کہ اس کے بچوں کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اکثر اپنے بچے خود ہی کھا بھی جاتی ہے۔‘
بچوں کی پیدائش چھپائی کیوں گئی؟
جب انڈپینڈنٹ اردو نے چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم سے پوچھا کہ شیر کے بچوں کی پیدائش کا علم کسی کو کیوں نہیں ہوا اور خبر کو میڈیا یا عوام سے کیوں چھپایا گیا؟ تو کرن سلیم نے بتایا کہ ’دو بچے مر گئے تھے، یہ بچے ماں سے الگ تھے اس لیے ہم انتظار کر رہے تھے کہ بچے تھوڑے مستحکم ہو جائیں تو ہم عوام کو بتا دیں گے۔ ہم خود انہیں میڈیا اور عوام سے دور رکھ رہے تھے کیونکہ یہ بچے ماں کا دودھ نہیں پی رہے اس لیے ان کی قوت مدافعت کم تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ انہیں شیر کے بچوں کو دیکھیں گے یا ذرائع ابلاغ کے نمائندے بار بار کیمرے لے کر ان کی تصاویر بنانے آئیں گے تو انہیں انفیکشن ہونے کا خدشہ ہے۔
کرن سلیم نے یقین دلایا کہ ’ہم نے شیروں کے بچوں کی جان بچانے کے لیے انہیں الگ رکھا اور ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا۔ وہ تھوڑے بہتر ہوجائیں تو سب کو بتائیں گے بھی اور دکھائیں گے بھی۔‘
شیرنی بچے کیوں چھوڑ دیتی ہے؟
وائلڈ لائف اینڈ پارکس پنجاب کے سابقہ ڈائریکٹر شفقت علی نے بتایا کہ بچوں کو چھوڑ دینے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ بچوں کا نارمل نہ ہونا ہے۔
شفقت علی کے مطابق: ’شیرنی کی یہ فطرت ہے کہ پیدائش کے وقت اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے بچے نارمل نہیں ہیں جو ہم انسانوں کو بظاہر نظر نہیں آرہا ہوتا۔ شیرنی ایسے بچوں کو قبول نہیں کرتی بلکہ وہ انہیں ضائع کردیتی ہے۔ ہم نے بعض اوقات ایسے چھوڑے ہوئے بچوں کو خود سے پالنے کی کوشش کی ہے لیکن تمام تر کوششوں اور محنت کے باوجود بھی ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بڑے ہونے پر ان کے اندر کچھ معذوری پائی گئی جو ہمیں شروع میں نظر نہیں آئی لیکن شیرنی وہ معذوری پیدائش کے وقت ہی بھانپ جاتی ہے اس لیے وہ انہیں ختم کر دیتی ہے یا چھوڑ دیتی ہے۔‘
شفقت علی کا کہنا تھا کہ ’شیروں کی فطرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ معذور یا بیمار بچے پرائیڈ کا حصہ بنیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال بھی غلط ہے کہ اگر کوئی انسان شیر کے بچوں کو ہاتھ لگا دے تو شیرنی انہیں قبول نہیں کرتی۔
بقول شفقت علی: ’مشاہدے میں ایسی بات نہیں آئی کیونکہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو پنجرے میں جاکر بچوں کو ایک طرف کر کے صفائی وغیرہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اگر بچے نارمل ہیں تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ماں نے بچوں سے لاتعلقی کرلی ہو، یہ صرف ایک وہم ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ ڈر یا خوف میں بھی شیرنی ایسی حرکت کر جاتی ہے کہ اگر اسے لگے کہ اس کے بچوں کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ انہیں کھا بھی جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز کے ڈاکٹر، سرجن اور جانوروں کے امراض کے ماہر، ڈاکٹر ضیا اللہ مغل نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر شیرنی کو کوئی ڈر محسوس ہوا ہو یا جنگل میں اگر کوئی شکاری یا شیر ان کے قریب آجائے تو اس صورت میں بھی شیرنی بچوں کو کھا جاتی ہے یا لاتعلق ہو جاتی ہے اور جو سب سے زیادہ اہم وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ماں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے بچے نامکمل پیدا ہوئے ہیں تو بھی وہ انہیں کھا جاتی ہے۔‘
کیا شیرنی کا دودھ خشک ہونا خوراک کی کمی ہے؟
چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم کا شیرنی کی غذائیت کے حوالے سے کہنا تھا کہ حاملہ شیرنی کو کھانے کے ساتھ ساتھ سپلیمنٹس بھی دیے جاتے تھے اس لیے غذائیت کی کمی کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ دودھ خشک ہوجانے کی دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر ضیا کا کہنا ہے کہ ’شیرنی کا دودھ خشک ہو جانے کی بھی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ ہارمونل ڈس آرڈر ہے۔ بعض اوقات کسی پرانی بیماری کی وجہ سے بھی دودھ نہیں اترتا۔‘
جبکہ غذائیت کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ایسی صورت میں بچے کمزور پیدا ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ضیا نے یہ بھی بتایا: ’چڑیا گھر کے شیروں میں غذائیت کی کمی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں ایک اصطلاح رائج ہے ’باڈی کنڈیشنز‘، ہمارے شیر اس کے معیار سے اوپر ہیں، بلکہ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں ہمیں کہتی ہیں کہ ہم اسے کم کریں لیکن ہمارے ہاں جو معیار ہے ہمیں اس کے مطابق ہی انہیں کھانا دینا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کسی دور میں شیروں کو دیے جانے والا گوشت اور ہڈی بہت برا ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کا معیار انتہائی اعلیٰ درجے کا ہے۔
شیر کے بچوں کی بیماری کے حوالے سے ڈاکٹرضیا کا کہنا ہے کہ چھوٹے جانوروں کا جب علاج ہو رہا ہوتا ہے تو انہیں 24 گھنٹے ہاتھوں میں اٹھا کر رکھ سکتے ہیں۔ ایسے جانوروں میں بیماری کا تناؤ تو ہوتا ہے لیکن اسے کس طرح اٹھا کر رکھا جا رہا ہے، اسے اس کی پریشانی نہیں ہوتی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بڑے جانور جو جنگلی بھی ہیں ان میں بیماری کے تناؤ کے ساتھ ساتھ نقل وحمل کا بھی تناؤ ہوتا ہے۔ انہیں ہر وقت چڑیا گھر سے باہر نہیں لے جایا جاسکتا اور ہر چیز چڑیا گھر میں میسر نہیں ہے، اس لیے یونیورسٹی اس معاملے میں چڑیا گھر کو معاونت فراہم کر رہی ہے۔‘