وزیراعظم عمران خان نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو افغانستان میں کارروائیوں کے لیے پاکستانی اڈے استعمال کرنے کے امکان کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم نے امریکی نیوز ویب سائٹ ایکسیوس (Axios) کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا: ’افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان سرحد پار سے انسداد دہشت گردی مشنز کے لیے امریکہ کو اپنی سرزمین پر اڈے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔‘
اس سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کوئی فوجی اڈے پاکستان منتقل نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ رواں برس 11 ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی افواج کے انخلا کا وقت قریب پہنچ چکا ہے اور ایسی صورت حال میں عدم استحکام کے شکار اس ملک میں انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو برقرار رکھنا جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک اہم سوال بن گیا ہے لہذا اس صورت حال میں پاکستانی اڈوں کی امریکہ کے لیے اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
غیر ملکی افواج کا حتمی انخلا ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کئی صوبوں میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ انخلا کے بعد طالبان افغانستان فوج پر غلبہ پا لیں گے کیوں کہ ان کا زیادہ تر انحصار نیٹو کی حمایت، ان کی انٹیلی جنس، رسد اور خصوصاً امریکی فضائی مدد پر تھا۔
یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا میں بھی افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پر نظر رکھنے اور انٹیلی جنس برقرار رکھنے کے لیے اڈووں کی تلاش میں ہے۔
رواں ہفتے سامنے آنے والی ایک خبر کے مطابق نیٹو کمان کے تحت کام کرنے والے سکیورٹی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد محفوظ اڈے فراہم کرنے کے لیے نیٹو نے قطر سے بھی رابطہ کیا ہے۔
’ڈو مور‘
امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ اور بے یقینی کا شکار رہے ہیں اور واشنگٹن کی جانب سے متعدد بار اسلام آباد سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے حال ہی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا، جس کے حوالے سے کافی لے دے ہوئی، تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا تھا کہ پاکستان کا کسی کو کوئی ہوائی اڈہ دینے کا ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی سی آئی اے کے چیف کا دورہ پاکستان خفیہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ منظم ہونے کے خطرے سے خبردار کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپریل میں کہا تھا کہ ’جب امریکی فوج کے انخلا کا وقت آئے گا تو امریکی حکومت کی خطرے کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی اور یہ ایک حقیقت ہے۔‘
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے رواں ہفتے کانگریس کو بتایا تھا کہ القاعدہ اور داعش جیسے عسکریت پسند گروپوں کو ممکنہ طور پر امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں دو سال لگیں گے۔
دوسری جانب امن عمل میں پاکستان کا شامل ہونا ایک اہم عنصر ہوگا جیسا کہ افغان صدر اشرف غنی نے گذشتہ ماہ ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’اب امریکہ کا افغانستان میں صرف ایک معمولی کردار بچ گیا ہے۔ اب ہمارے ملک میں امن یا بدامنی کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔‘