پاکستان میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے زیر انتظام بننے والے پہلے اورنج لائن ٹرین منصوبے کا کروڑوں روپے ماہانہ خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے اس کے تمام 26 سٹیشنوں کو نجی شعبے میں ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے مطابق 20 کروڑ روپے ماہانہ آمدنی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
موجودہ حکومت ابتدا سے ہی اس معاملے پر غور کر رہی ہے کہ مسافروں کو ریلیف دینے کے لیے کرایہ بڑھانے کی بجائے سٹیشنوں کو آؤٹ سورس کر کے آمدن بڑھائی جائے۔
سابق صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا مگر بعد میں اس حکمت عملی پر عمل نہ ہوسکا اور اب ایک بار پھر اس جانب توجہ دی جارہی ہے۔
اورنج لائن کے سٹیشنوں کو کس طرح آؤٹ سورس کیا جائے گا؟
ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب کے جنرل مینجر عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے اورنج لائن ٹرین کے اخراجات کم کرنے اور سٹیشنوں کو نجی مارکیٹنگ کمپنی کو پانچ سال کے لیے ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں خدوخال تیار کر لیے گئے ہیں اور چند روز میں ٹینڈر جاری کرکے سب سے زیادہ ریٹ دینے والی کمپنی کو یہ ٹھیکہ دے دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا: ’پہلے مرحلے میں زیادہ ریٹ دینے والی مارکیٹنگ کمپنی کو پانچ سال کے لیے ٹھیکہ دیا جائے گا، جس کے تحت وہ کمپنی سٹیشنوں پر دوسری کمپنیوں کی تشہیر کے لیے برانڈنگ، مختلف سٹالز اور ریسٹورنٹس بنا سکے گی۔ اس کے علاوہ ٹرینوں پر بھی اشتہارات آویزاں کرنے کی اجازت ہوگی جیسے دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔‘
عزیر شاہ نے کہا کہ ’ٹرین کا کرایہ بڑھانے کا اختیار اتھارٹی کے پاس ہی رہے گا، اس میں نجی کمپنی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اسی طرح یکطرفہ 40 روپے کرایہ برقرار رہے گا لیکن اب ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک یہ کرایہ رکھنے کی تجویز ہے جبکہ پہلے اسی ٹکٹ میں ایک جگہ سے کسی بھی سٹیشن تک جانے کا کرایہ 40 روپے رکھا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اورنج لائن ٹرین کے سٹیشنوں پر صفائی اور بجلی کے بلوں کی مد میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لہذا صفائی کا ٹھیکہ بھی کمپنی کو دینے اور ٹرینیں مسافروں کی تعداد کے مطابق چلانے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
اورنج لائن ٹرین کس حد تک سہولت؟
مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس منصوبے کی بنیاد 2014 میں رکھی تھی جو 2017 میں مکمل ہونا تھا، تاہم 2018 میں لیگی حکومت ختم ہونے پرباقی رہ جانے والا دس فیصد کام مکمل کرنے کے بعد موجودہ حکومت نے 2020 میں اس کا افتتاح کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال مسافروں کے لیے چلائی گئی ان چائنہ ساخت کی جدید ٹرینوں کے آپریشن سے پنجاب حکومت کو کروڑوں روپے ماہانہ خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے مطابق اورنج لائن ٹرین سے ماہانہ چھ کروڑ کے قریب آمدنی جبکہ 54 کروڑ روپے اخراجات ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔
بجلی سے چلنے والی اس جدید سفری سہولت میں لاہور کے علاقے علی ٹاؤن سے ڈیرہ گجراں تک 26 سٹیشنوں پر 27 ٹرینیں چلتی ہیں جن سے روزانہ اڑھائی لاکھ شہریوں کے لیے سفر کی سہولت ہے جب کہ روزانہ تقریباً ایک لاکھ کے قریب شہری اس پر سفر کر رہے ہیں۔
لاہور کے تاجر رہنما شاہد سلیم کے مطابق: ’مفادعامہ کے منصوبوں میں حکومت کو اخراجات کی بجائے عوامی سہولت کی پرواہ ہونی چاہیے لہذا اگر حکومت کو اس میں خسارہ ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، دنیا بھر میں عوامی مفاد کے منصوبوں سے کمائی کم ہی ہوتی ہے جو حکومتیں دیگر ذرائع یا ٹیکسوں کی مد میں حاصل کر لیتی ہیں۔ کوئی حکومت اپنی جیب سے اخراجات نہیں کرتی۔‘