وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے ایک حالیہ تبصرے پر ملک بھر کی صحافی برادری نے مذمتی بیانات جاری کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت کے خلاف ’سازش‘ قرار دیا ہے۔
معاون خصوصی شہباز گل پر گذشتہ ہفتے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پراگرام میں دے جانے والے ایک بیان کے بعد سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور پریس کلب اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد سمیت ملک بھر کے دیگر بڑے شہروں کے پریس کلب عہدیداران اور دیگر صحافتی تنظیموں نے ڈاکٹر شہباز گل کے رویے اور میڈیا کے تناظر میں ان کے حالیہ بیان کی مذمت کی ہے۔
اس تنقید کا سلسلہ جمعرات کو شروع ہوا جب مشیر خاص نے نجی نیوز چینل ’اے آر وائی‘ پر میزبان کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں کہا: ’یہ زیادتی کی بات ہوتی ہے کہ پروگرام میں دوسری پارٹیز سے کوئی ماہر معاشیات آ جائے جیسے مفتاح اسمائیل یا زبیر عمر اور پی ٹی آئی سے کسی وکیل یا کسی سماجی علوم کے ماہر کو بلا لیا جاتا ہے جو کہ فئیر پلے نہیں ہے۔‘
بظاہر شہباز گل نے پروگرام میں اپنی پارٹی ’پالیسی‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پروگرامز میں مہمان ان کی ’مرضی‘ سے بھیجے جائیں گے۔
جس پر اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ ’پروگرام کے موضوع، مواد اور مہمانوں کا فیصلہ بھی آپ کر لیں‘ جس پر شہباز گل جنہیں ایک اور پروگرام میں جانا تھا نے روانی میں کہا: ’ہم آہستہ آہستہ یہ بھی کر رہے ہیں۔‘
ان کی بات کے ردعمل میں کاشف عباسی نے کہا کہ ’آپ اپنا چینل ہی قائم کرلیں جیسا کہ آپ کر رہے ہیں جس میں سب کچھ آپ کی مرضی کا ہو۔‘
اس گفتگو پر ردعمل کے طور پر لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں نے مذمت بیانات جاری کیے ہیں۔
لاہور پریس کلب کے عہدیداران کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کلب وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کی جانب سے حالات حاضرہ کے پروگرامز پر اثر انداز ہونے، نجی ٹیلی ویژن چینلز پر اپنی مرضی کے پروگرام ترتیب دینے اور حکومتی منشا کے مطابق ان پروگراموں میں مہمانوں کو بلانے کے عزائم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کلب کے عہدیداران وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں اس بیان کو کہ حکومت کرنٹ افیئرز کے پروگرامز کے لیے موضوع اور مہمانوں کا تعین خود کرے گی، آزادی صحافت اور صحافیوں پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’شہباز گل کے خیالات حکومت کی فاشسٹ پالیسی کے آئینہ دار ہیں۔ شہباز گل کی عادت ہے کہ ان سے کوئی سوال کیا جائے تو بدتمیزی کرتے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں بھی ایک سینیئر صحافی عظیم ایم میاں سمیت دیگر صحافیوں سے بدتمیزی کی جس پر نیویارک کے صحافیوں نے ان کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارشد انصاری کے مطابق ’سیدھی سی بات ہے اگر آپ نے کسی سوال کا جواب نہیں دینا تو آپ بتا دیں کہ آپ جواب نہیں دینا چاہتے نہ کہ جواب میں آپ یہ کہیں کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں یا میں دیکھوں گا تم نوکری کیسے کرتے ہو۔‘
لاہور پریس کلب کے صدر کا کہنا تھا کہ ’اب ٹاک شوز کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرکے تو شہباز گل نے حد ہی کر دی۔ ان کے اسی رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے مذمت بیانات جاری کیے۔‘
ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ ملک میں آمریت کے انتہائی خوفناک ادوار رہے لیکن ان ادوار میں بھی صحافیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا جو اس دور حکومت میں ہو رہا ہے۔
’آج کل تو یہ باقائدہ ہدایات جاری کرتے ہیں کہ کونسی خبر چلے اور کونسی نہیں۔ مجھے بھی ایک عرصہ ہو گیا صحافت میں پرویز مشرف کا دور بھی دیکھا اس میں بھی ایسا نہیں ہوا۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو ’دھونس دھمکی اور گن پوائنٹ والا معاملہ شروع ہوا ہے اسے بند کیا جائے۔‘
’اگر شہباز گل نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور ہمیں دبانے کی کوشش کی تو پھر ہم دبیں گے نہیں بلکہ اور ابھریں گے۔ ہم صرف پنجاب میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر اسمبلیز کی کوریج کا بائیکاٹ کریں گے اور شہباز گل کو پریس کانفرنس بھی نہیں کرنے دیں گے۔ ہم نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہباز گل کو عہدے سے برطرف کریں۔‘
سوشل میڈیا پر بھی کچھ سینیئر صحافی شہباز گل کے رویے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ سینیئر صحافی حامد میر نے ٹویٹ میں لکھا: ’لاہور، کراچی، پشاور اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی طرف سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے خلاف مذمتی بیانات حکومت اور صحافیوں کے تعلقات کی نوعیت پر اہم سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو چاہیے کہ معاملے کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور غلط فہمیاں دور کروائیں۔‘
لاہور ، کراچی، پشاور اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی طرف سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے خلاف مذمتی بیانات حکومت اور صحافیوں کے تعلقات کی نوعیت پر اہم سوالات اٹھا رہے ہیں وزیراطلاعات فواد چودھری کو چاہئیے کہ معاملے کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور غلط فہمیاں دور کرائیں pic.twitter.com/VrPojn8zQI
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) June 27, 2021
صحافی مطیع اللہ جان نے مذمتی بیانات کے ہمراہ ٹویٹ کی اور لکھا ’پی ٹی آئی کی سینسر شپ پالیسی باہر آگئی۔‘
Censorship Policy of PTI is out pic.twitter.com/U44vHPlEgj
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) June 27, 2021
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے کے حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن متعدد کوششوں کے باوجود شہباز گل کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے بھی اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا البتہ معاون خصوصی شہباز گل نے اپنے خلاف صحافیوں کے مذمتی بیانات کے تناظر میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا: ’لاہور، اسلام آباد کے پریس کلبز جو بات میں نے کی بھی نہیں اس پر میری مذمت کر رہے ہیں۔‘
لاہوراسلام آباد کے پریس کلب جو بات میں نے کی بھی نہیں اس پر میری مزمت کر رہے ہیں۔صرف اتنا کہا ہے کہ ہر جماعت کو اپنا ترجمان منتخب کرنے اور TV پر بھیجنے کا اختیار ہےُ-یہ جھوٹا افسانہ کہاں سے آگیا کہ حکومت کی مرضی کے پروگرام ہوں گے؟ یہ بہت محترم فورم ہے اسے ایسے برباد نہ کریں pic.twitter.com/OecS2yXIxh
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) June 26, 2021
انہوں نے مزید لکھا کہ ’صرف اتنا کہا ہے کہ ہر جماعت کو اپنا ترجمان منتخب کرنے اور ٹی وی پر بھیجنے کا اختیار ہے- یہ جھوٹا افسانہ کہاں سے آگیا کہ حکومت کی مرضی کے پروگرام ہوں گے؟ یہ بہت محترم فورم ہے اسے ایسے برباد نہ کریں۔‘