بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے گذشتہ ہفتے اغوا ہونے والے جماعت کے رہنما اور مرکزی کمیٹی کے ممبر ملک عبید اللہ کاسی کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
ملک عبید اللہ کاسی کے اہل خانہ کے مطابق انہیں ہفتے (26 جون) کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں کلی کتیر سے اغوا کیا گیا تھا اور ان کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں۔
اے این پی کے کارکنوں اور قائدین نے ان کے اغوا کی خبر کے بعد کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا تھا، جس میں انہوں نے قومی شاہراہ کو بلاک کردیا تھا اور ان کی بازیابی کے لیے انتظامیہ کو 72 گھنٹوں کا وقت دیا تھا۔
اغوا کی تفصیلات
کچلاک تھانے میں ملک امن اللہ کاسی کی مدعیت میں درج مقدمے کے مطابق 26 جون کو شام ساڑھے سات بجے ان کے بھتیجے جان شیر نے اطلاع دی کہ ان کے چچا عبید اللہ کاسی کو کلی کتیر سے اغوا کیا گیا۔
ملک امین کے بقول: ’جان شیر نے بتایا کہ ایک سنہرے رنگ کی گاڑی سے چار مسلح افراد نکلے، جو زبردستی میرے بھائی کو گاڑی سے اتار کر اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پولیس کو بتایا کہ جان شیر اغوا کرنے والوں کی گاڑی چلانے والے کو سامنے آنے پر شناخت کرسکتے ہیں۔
تحقیقات میں پیش رفت کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی آئی جی کوئٹہ اظہر اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے موبائل پیغام کے جواب میں کہا کہ ’ان کی بازیابی کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔‘
’اے این پی کو بار بار کرب سے گزرنا پڑتا ہے‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مابت کاکا نے بتایا کہ کچلاک میں زمینوں کے مسئلے چل رہے ہیں، ’تاہم ملک عبید کاسی کا اغوا کچھ اور معاملہ لگتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہفتے کو کچلاک میں قومی شاہراہ کو بند کرکے احتجاج شروع کیا تھا جس پر رات گئے کمشنر کوئٹہ اور دیگر پولیس حکام آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حکام نے ان سے کہا کہ تفتیش جاری ہے اور انہیں تین دن کا وقت دیا جائے، جس پر جماعت کے قائدین اور جرگے نے ان کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کیا لیکن ایک کیمپ قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
مابت کاکا نے کہا: ’ملک عبید اللہ کاسی کا اغوا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ جماعت کو ہر تیسرے مہینے اذیت اور کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔‘
مابت کاکا کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں وطن، قوم اور مٹی سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ ہم ابھی تک اسد خان اچکزئی کی مسخ شدہ لاش ملنے کے صدمے سے نہیں نکلے، اب ایک اور رہنما کو اغوا کرلیا گیا۔‘
یاد رہے کہ رواں سال فروری میں اے این پی کے رہنما اسد خان اچکزئی کی لاش ملی تھی جو پانچ ماہ قبل ستمبر 2020 میں لاپتہ ہوئے تھے۔
مابت کاکا نے کہا: ’ہمیں جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے، ان ہتھکنڈوں سے ہم اپنے موقف اور بیانیے سے پیچھے نہں ہٹیں گے۔‘
مابت کاکا نے بتایا کہ اگر ملک عبیداللہ کاسی کی مقررہ وقت میں بازیابی نہیں ہوئی، تو پھر پارٹی رہنما اور قبائلی جرگہ آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
دوسری جانب اے این پی کے جنرل سیکرٹری نظر علی نے کہا کہ 48 گھنٹے گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ملک عبید کاسی کی بازیابی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ’اب دیکھتے ہیں کہ اگر ہمارے رہنما کو بازیاب نہیں کیا گیا توآئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔‘