چاہے حزب اختلاف کا دباؤ تھا یا کچھ بھی وزیر اعظم عمران خان کی بدھ کو پارلیمان میں تقریر میں کئی مثبت تبدیلیاں تھیں۔ سب سے بڑا واضح اور مثبت فرق شریف اور بھٹو خاندان یا ان کی مبینہ کرپشن کا ذکر نہ ہونا تھا۔
’ڈاکو‘ کا لفظ منہ سے نکلا ضرور، مگر شیر شاہ سوری کے دور سے متعلق۔ اپنی پرانی تقریروں کے برعکس انہوں نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا، اس لیے اس سے آگے نہیں بڑھی۔ وزیر اعظم کی حکومت اور اپوزیشن میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت تقریباً لازمی جز رہے ہیں۔ اس کے بغیر ان کی تقریر بدلی بدلی سی لگی۔
پچھلے تین برس سے حزبِ اختلاف وزیرِ اعظم کی تند و تیز تقریروں کی وجہ سے مسلسل الزام لگاتی رہی ہے کہ عمران خان ابھی تک کنٹینر پر کھڑے ہیں، لیکن اس تقریر سے بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ تین برس بعد ہی سہی، کنٹینر سے اتر آئے ہیں۔
تاہم مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ٹی وی شو میں حقیقت بتائی کہ اس کی وجہ اپوزیشن کے ساتھ سرکاری بنچوں کے ساتھ تقریر سے قبل ایک معاہدہ تھا کہ وہ ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ تقریر میں تاخیر بھی اسی وجہ سے تھی کہ اس بات پر معاہدہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
عام آدمی کے لیے یہ یقینا ایک اچھی تبدیلی تھی۔ اکثر کے کان حکومت سے کرپشن کرپشن کے بیانات سن کر پک گئے ہیں۔ وہ حکومت کی جانب سے سیاسی بیانات کی بجائے عدالتوں کے بدعنوانی کے ٹھوس فیصلے سننا چاہتے ہیں۔
سیاسی مبصرین بھی اس تبدیلی کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ ڈان اخبار کے ایڈیٹر فہد حسین لکھتے ہیں کہ ’اپوزیشن پر تنقید کرنے سے دور رہ کر، جو اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے، اور حکمت عملی کے ساتھ ٹھوس پالیسی معاملات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے حالات کے معمول پر آنے کا پیغام دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان، کشمیر، معیشت اور دیگر سٹرٹیجک معاملات پر اکثر تو وزیر اعظم عمران خان میڈیا انٹرویوز میں ہی روشنی ڈالتے تھے لیکن معتبر پارلیمان میں آ کر اہم مضوعات پر بات کرنا اپنے آپ میں بہت اہم بات تھی۔ اس سے حالیہ دنوں میں جو ایوان کا حشر دونوں جانب کے بنچوں نے کیا اس کا کچھ مداوا ہوا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں منتخب نمائندوں کو اپنی سیاسی محازآرائیاں ایک جانب رکھ کر بلوغیت کا احساس دینا ہے۔
ان کی جانب سے اب تک کی معاشی ٹیم کی تعریف بھی کافی حیران کن رہی۔ معیشت ہی تو اپوزیشن کا الزام ہے کہ ان سے درست انداز میں نہیں چلی جس کی وجہ سے انہیں وزیر خزانہ بار بار تبدیل کرنے پڑے۔
عمران خان نے انتخابی اصلاحات کے معاملے پر بھی شاید پہلی مرتبہ نرمی دکھاتے ہوئے دل پر بظاہر بڑا پتھر رکھ کر حزب اختلاف سے اگر ان کے پاس بہتر تجاویز ہیں تو پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس وقت کی باڈی لینگویج دیکھنے لائق تھی۔ بغیر مڑے جس انداز سے انہوں نے اپوزیشن بینچوں کی جانب اشارہ کیا وہ قابل دید تھا جیسے کوئی اپنے اندر کی جنگ لڑ رہا ہو۔
ان کی تقریر میں یہ افغانستان کی صوت حال سے متعلق یہ اعلان کہ ’ہم امریکہ کے ساتھ امن کے شراکت دار تو بن سکتے ہیں لیکن جنگ میں کبھی نہیں‘ کافی بڑا پالیسی شفٹ ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ صرف ملکی سیاسی قیادت کی آج کی سوچ کا مظہر ہے یا اسٹیبلشمنٹ بھی دل کھول کر اس میں شامل ہے۔
ماضی میں فوجی حکمرانوں نے ایک ٹیلیفون کال پر ’مجاہد‘ کو ’دہشت گرد‘ بنا دیا تھا۔ اس وقت بھی کسی کی نہیں سنی گئی، کوئی مشاورت نہیں ہوئی اور فیصلہ ہو گیا۔ وہ عوام سے زیادہ فوجی آمروں کے دوام کا مسئلہ زیادہ تھا۔ اس بات پر آج بھی رائے منقسم ہے کہ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے وہ فیصلے دانشمندانہ تھے یا نہیں۔ سب سے بڑا تاہم سوال یہی ہے کہ اگر یہ فیصلے نہ ہوتے آج پاکستان کتنا مختلف ہوتا۔
آج کل ایوان میں ویسے بھی لمبی لمبی تقریروں کا سیزن ہے تو وزیر اعظم کی تفصیلی تقریر بھی کچھ پیچھے نہ رہی۔ لیکن اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے بعد آج پارلیمانی رہنماؤں کو بند کمرے میں ملک کے سکیورٹی اداروں کی جانب سے خطے کے حالات پر بریفنگ بھی ایوان کو مزید موثر اور طاقتور بنانے کی مثبت کوشش ہے۔ تمام اہم ترین قومی فیصلے یہیں ہونے چاہیں۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم کو بھی ہونا چاہیے تھا لیکن وہ ماضی کی روش کو اپناتے ہوئے یہاں بھی حزب اختلاف کی شکلیں دیکھنے سے انکار کر گئے۔
ماضی میں ان کے حامیوں کے لیے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ماضی کے پاکستانی رہنماؤں کا لکھی ہوئی تقریر پڑنا تھی۔ اس پر کئی میم بنے اور عمران کا کبھی لکھی تقریر نہ کرنا ان کی اہم ترین صلاحیت کے طور پر پیش کا گیا۔ بدھ کی تقریر میں لکھی تقریر تو نہیں تھی لیکن وہ چیدہ چیدہ پوائنٹس لکھ کر ضرور لائے جنہیں وہ دیکھتے رہے۔ تین سال کی حکمرانی نے کافی کچھ بدل دیا ہے۔