افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک میں طالبان جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان مختلف اضلاع پر انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کی پرتشدد جدوجہد کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شمالی علاقوں سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد جنوب کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ طالبان جنگجوؤں نے بیشتر شمالی علاقوں پر انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقے پاکستان کی مغربی سرحد سے متصل ہیں۔ اس سرحدی علاقے کو ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے جس میں زیادہ تر سابق فاٹا کی ایجنسیاں شامل تھیں، جو اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال سے متعلق امور کی نگران وزارت سٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز (سیفران) کے پارلیمانی سیکرٹری اور سابق فاٹا سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان نے اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جب بھی پناہ گزینوں کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو سب سے پہلے قبائلی اضلاع پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ ’افغان شہری ہماری سرحدوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر پیدل چل کر پہاڑوں کے راستے ہمارے علاقوں میں داخل ہو جاتے ہیں، جس سے ہماری معیشت اور سکیورٹی صورت حال متاثر ہوتی ہے۔‘
’اسی تناظر میں سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے گذشتہ پیر کو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کو معاملات کا ادراک ہے اور وہ معاملے کے حل کے لیے دوست ممالک سے رابطے میں ہیں۔‘
ہمارے استفسار پر محمد اقبال خان نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ، چین اور ایران سے ’مذاکرات‘ چل رہے ہیں جس میں ممکنہ افغان پناہ گزینوں کی صورت حال سے نمٹنے پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق پاکستان کا لائحہ عمل؟
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق حکومتی سطح پر ایک تجویز زیر غور ہے کہ اس مرتبہ اگر چار و ناچار افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینی پڑی تو انہیں سرحدوں کے قریب بفر زونز تک ہی محدود رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اقبال خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان پہلے ہی بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت بھی کم و بیش 30 سے 40 لاکھ کے قریب افغان شہری پاکستان میں موجود ہیں۔ ایسے میں اگر ہمیں مزید افغانوں کو بھی سنبھالنا پڑا تو ہم وہ طریقہ اپنائیں گے جو پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔‘
محمد اقبال خان نے یکم جولائی کو بلائے گئے قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے حوالے سے بتایا کہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں افغانستان کی تازہ ترین صورت حال اور ممکنہ افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
غیر ملکی افواج کے انخلا پر پاکستان کے تحفظات؟
حالیہ دنوں میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ان تحفظات کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے جب وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ہمیشہ سے افغان مسئلے کے پر امن تصفیے کا خواہاں رہا ہے، تاہم ہماری اولین کوشش اور خواہش یہ بھی رہی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی رفتار اور امن مذاکرات میں پیش رفت متواتر ہونی چاہیے تاکہ امن و امان کی صورت حال پیدا نہ ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب غیر ملکی افواج کا انخلا تو ہو رہا ہے مگر امن مذاکرات کی پیش رفت پر ہمیں سخت تشویش ہے۔‘
یاد رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ ’پاکستان نے مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے افغان طالبان پر کافی دباؤ ڈالا تھا۔ مگر جیسے ہی امریکہ نے افغانستان سے انخلا کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا ہے تو اس دباؤ کا جواز ختم ہو گیا ہے۔‘
کیا پاکستان افغان پناہ گزین کو پناہ دینے کا پابند ہے؟
بین الاقوامی قانون کے ماہر بیرسٹر صفی غوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان پناہ گزینوں کے حقوق اور پناہ دینے کے حوالے سے دنیا میں موجود کسی کنونشن یا معاہدے کا براہ راست پابند نہیں ہے، تاہم پناہ گزینوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے بلاواسطہ ہی سہی مگر خواتین اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان پر اخلاقی ذمہ داری لاگو ہوتی ہے۔ مگر یہ خالصتاً اخلاقی ذمہ داری ہے کیونکہ اس وقت تک انسانی حقوق کی عالمی عدالت جیسے کسی ادارے کا وجود نہیں جہاں پر کوئی پناہ گزین جا کر یہ مقدمہ کر سکے کہ فلاں ملک نے میرے حقوق پامال کیے ہیں۔‘
پاکستان میں افغان پناہ گزین کتنے اور کون ہیں؟
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر خان آفریدی کے مطابق اس وقت پاکستان میں 54 پناہ گزین گاؤں قائم ہیں۔ ان میں سے 43 خیبر پختونخوا میں، 10 بلوچستان میں اور ایک پنجاب میں ہے۔
قیصر خان آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو تین کیٹیگریز میں رکھا گیا ہے۔
اول وہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں جن کی تعداد صرف 15 لاکھ ہے۔ یہ افراد گذشتہ 40 سال سے پاکستان میں موجود ہیں اور ان کو 07-2006 میں حکومت پاکستان کی جانب سے باقاعدہ نادرا کے رجسٹریشن کارڈز جاری کیے گئے تھے۔ ان کارڈز کو پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز کہتے ہیں۔
دوسری کیٹیگری میں وہ افراد ہیں جن کے پاس افغان شہری ہونے کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد آٹھ لاکھ ہے اور حکومت پاکستان نے 2017 میں ان کی رجسٹریشن کی تھی، مگر ان افراد کو پناہ گزین کا سٹیٹس حاصل نہیں۔ یہ افغان شہری ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ان پر ہر وہ پاکستانی قانون لاگو ہوتا ہے جس کا اطلاق پاکستان میں موجود کسی بھی غیرملکی شہری پر ہے۔
تیسری کیٹیگری میں غیر رجسٹرڈ افغان ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے شہری ہیں مگر ان کے پاس اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔ ایسے افراد پاکستان کی جانب سے رجسٹریشن کے بھی اہل نہیں ہیں۔ ان کی تعداد چار لاکھ ہے۔
قیصر خان کے مطابق یو این ایچ سی آر صرف پی او آر کارڈ ہولڈرز ہی کو افغان پناہ گزین تسلیم کرتی ہے اور ان ہی کی کفالت پر مامور ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل ہونے والے کسی افغان شہری کے کوائف ان کے پاس آتے ہیں نہ وہ کسی ایسے شخص کے ذمہ دار ہیں۔
اقوام متحدہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟
قیصر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 40 سال سے افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جس پر وہ پاکستان کے مشکور اور معترف ہیں۔
’اس کے ساتھ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ پھر سے کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پاکستان تنہا افغان پناہ گزینوں کی کفالت نہیں کر پائے گا۔ ایسی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کا ساتھ دینا ہو گا اور یو این ایچ سی آر اس میں پیش پیش ہوگا۔‘