اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیت نے یہودی آباد کاروں کے لیے جمعے تک مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستی خالی کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے پیش کیے گئے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کاروں کے اس علاقے میں واپسی کے امکانات بھی موجود ہیں۔
یہودی آباد کاروں نے حالیہ ہفتوں کے دوران نابلس کے قریب ’ایویٹر نامی بستی‘ تعمیر کی تھی جس سے بین الاقوامی اور اسرائیلی قانون کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔
یہودی آباد کاروں کے اس اقدام کے خلاف قریبی دیہات میں مقیم فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔
ماضی میں یہودی آباد کاری کے لیے مہم چلانے والے نفتالی بینیت نے بدھ کی شب اس معاہدے کی تفصیلات جاری کیں جس میں ایویٹر کے رہائشیوں سے جمعے کی شام چار بجے تک یہ چوکی خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔
اس سے سلسلے میں شرائط کا خلاصہ پیش کرنے والے ایک خط میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہودی آباد کاروں کے مکانات اسی جگہ پر قائم رہیں گے اور 1967 سے مغربی کنارے پر قابض اسرائیلی فوج اس علاقے میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ آباد کاروں کے انخلا کے بعد وزارت دفاع ’اس مقام پر جتنا جلد ممکن ہو لینڈ سروے کرائے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ اس زمین کو اسرائیلی کی سرکاری ملکیت قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خط میں مزید کہا گیا کہ اگر سروے میں اس زمین کو اسرائیلی سرزمین قرار دے دیا گیا تو یہاں ’ایک مذہبی ادارے کے ساتھ رہائش گاہوں کی تعمیر کی اجازت دی جائے گی جو کہ یشیوا (مذہبی سکول) کے عملے اور ان کے اہل خانہ کے لیے ہوں گے۔‘
مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کو بین الاقوامی برادری غیر قانونی تصور کرتی ہے۔
بییتا نامی قریبی گاؤں کے فلسطینی رہائشیوں کا موقف ہے کہ ایویٹر کو ان کی سرزمین پر تعمیر کیا گیا ہے اور انہوں نے یہودی آباد کاروں کے مستقل طور پر انخلا کے علاوہ کسی بھی سمجھوتے کو قطعاً مسترد کیا ہے۔
حال ہی میں فلسطین کے شہر نابلس کے قریب واقع یہودی بستی ایویٹر میں جھڑپوں کے دوران اسرائیلی فوج نے چار فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہودی آباد کاروں کے معاملے پر اسرائیل کی نئی نظریاتی طور پر منقسم مخلوط حکومت کے اندر بھی تناؤ پایا جاتا ہے۔
اس حکومتی اتحاد میں بینیت جیسے دائیں بازو کے آباد کاروں حامی بھی شامل ہیں جبکہ آباد کاری کی جزوی مخالف سینٹرسٹ، ڈووش پارٹیز بھی شامل ہیں اور قدامت پسند عرب جماعت بھی شامل ہے۔
آباد کاری کی مخالفت کرنے والے گروپ ’پیس ناؤ‘ نے ایویٹر معاہدے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اس گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سیاسی طور پر اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت ایک چھوٹی اقلیت سے الجھنا نہیں چاہتی۔ لیکن آبادکار اب بھی اپنی من مانی کر سکتے ہیں۔‘