اخبار اسرائیل ہیوم (آج یا ٹوڈے) نے اسلام آباد میں موجود ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر سید ذلفی بخاری نے گذشتہ سال نومبر میں اسرائیل کا مختصر دورہ کیا تھا۔
تاہم وزیر اعظم کے مذہبی امور کے مشیر طاہر اشرفی اور خود زلفی بخاری نے بھی اس خبر کی تردید کی ہے۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق زلفی بخاری اپنے برطانوی پاسپورٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد سے براستہ لندن اسرائیل کے بین گوریون ایئرپورٹ پہنچے تھے۔
’ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد انہیں تل ابیب لے جایا گیا تھا جہاں ان کی اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار سے ملاقات ہوئی تھی۔‘
اخبار کے مطابق ذلفی بخاری نے وزیراعظم عمران خان کا پیغام وزارت خارجہ کے اہلکار کو دیا تھا جب کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ یوسی کوہن کو آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا پیغام دیا تھا۔
اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ ملاقات متحدہ عرب امارات کے ’شدید دباؤ‘ کے بعد کی گئی۔
DIDNOT go to Israel.
— Sayed Z Bukhari (@sayedzbukhari) June 28, 2021
Funny bit is Pakistani paper says I went to Israel based on "Israeli news source" & Israeli paper says I went to Israel based on a “Pakistani source”-wonder who this imaginative Pakistani source is
Apparently, I’m the only one who was kept out of the loop. https://t.co/bcRO3osWMk
تاہم سابق مشیر زلفی بخاری نے اس خبر کی کرتےہوئے کہا ہے کہ ’میں اسرائیل نہیں گیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ معلومات پاکستان اور اسرائیلی افواج کی امریکہ اور یوکرائن کے زیر سایہ بحر اسود میں ہونے والی بحری مشقوں کے تناظر میں جاری کی گئی ہیں۔
پاکستان نیوی ان مشقوں میں بطور مبصر حصہ لے رہی ہیں۔
ان مشقوں میں پاکستان کے علاوہ مسلمان ممالک میں سے مصر، متحدہ عرب امارات، مراکش، تیونس اور ترکی حصہ لے رہے ہیں۔
گذشتہ سال دسمبر میں اسی اخبار نے کسی ملک یا شخصیت کا نام لیے بغیر یہ خبر دی تھی کہ ایک بڑے مسلمان ملک کے رہنما کے سینیئر مشیر نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور حکام سے بات چیت کی تھی۔
اس خبر آنے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگی تھی کہ زلفی بخاری اسرائیل گئے تھے مگر اس وقت بھی زلفی بخاری نے نہ صرف اس کی تردید کی تھی بلکہ ایک اخبار ’مڈل ایسٹ مانیٹر‘ کو خط بھی لکھا تھا جس کے بعد انہوں نے اس خبر کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹاتے ہوئے معافی مانگی تھی۔
اسرائیلی اخبار کے مدیر ایوی شارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یہ خبر اسرائیلی فوجی حکام نے خبر چلانے کی اجازت دی ہے جس کے بعد اسے شائع کیا گیا ہے۔