پنجاب اسمبلی میں ممبرز تحفظ استحقاق بل کی تیاری خفیہ رکھ کر پاس کرانے کے بعد کئی سوالات جنم لینے لگے ہیں۔
اس بل پر اپوزیشن کے اعتراض نہ کرنے پر معاملہ مزید مشکوک ہوگیا جسے صحافیوں اور بیوروکریٹس کو زیر اثر رکھنے کی مشترکہ حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر لاعلم رکھے جانے پر محکمہ قانون بھی حیران ہے، قانون سازی کے ردعمل سے بچنے کے لیے حکومت نے پرائیویٹ رکن سے بل پیش کرایا۔
اس قانون کے تحت ایوان میں موجود ارکان یا کسی کمیٹی سے متعلق قابلِ اعتراض رپورٹ یا تلخ کلامی پر کسی بھی بیورو کریٹ یا صحافی کو قید وجرمانے کی سزا بھگتنا ہوگی۔
پنجاب اسمبلی میں ممبرز تحفظ استحقاق بل کے معاملے پر صحافیوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم نے کہا ہے کہ ’یہ بل اسمبلی سے بغیر بحث کرائے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا جو کہ پارلیمانی روایات کے بھی خلاف ہے اور میڈیا کی آزادی کے بھی مخالف ہے۔‘
صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس پر اپوزیشن نے بھی اعتراض نہیں کیا، بل پر اپوزیشن کے اعتراض نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل کی گئی اور اس کے بعد ہی بل کی پنجاب اسمبلی سے منظوری لی گئی۔
پنجاب اسمبلی کی کمیٹی برائے قانون کے مطابق بل جب پنجاب اسمبلی میں پیش ہوا تو محکمہ قانون بھی حیران رہ گیا، بل پر محکمہ قانون کی رائے لی ہی نہیں گئی، بل کی منظوری کے لیے 23 جون کو خصوصی کمیٹی نمبر 9 کا اجلاس بلایا گیا، بل خصوصی کمیٹی نمبر 9 میں زیر بحث نہیں لایا گیا اور محکمہ قانون کو بھی خصوصی کمیٹی نمبر 9 کے اجلاس سے لا علم رکھا گیا جبکہ بل پیش کرنے والے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی مخدوم عثمان محمود نے بل کو آئینی اور وقت کی ضرورت قراردیا اور اس کا بھر پور دفاع کیا ہے۔
منظور شدہ بل کا مقصد
پنجاب اسمبلی میں ممبرز تحفظ استحقاق بل میں قانون بنانے کی منظوری دی گئی ہے جس کے مطابق اب کوئی بھی بیوروکریٹ یا صحافی اسمبلی میں تلخ کلامی کرے گا تو تین ماہ تک سزا بھگتے گا اور 10 ہزار روپے تک جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
یہ بل بدھ کو خاموشی سے پاس کرا لیا گیا ہے جو گورنر کے دستخط ہونے کے بعد قانون بن جائے گا۔ ممبرز تحفظ استحقاق بل ایجنڈے سے ہٹ کر ایوان میں لایا گیا، حکومت نے بل پیپلز پارٹی کے ایم پی اے مخدوم عثمان سے پیش کرایا، بل سے پنجاب اسمبلی استحقاق کمیٹی کو مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ اس بل کے اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد اب گورنر پنجاب منظوری دیں گے تو یہ لاگو ہوجائے گا۔
صحافیوں نے اس بل کو بنیادی حقوق اور میڈیا پر قدغن لگانے کی سازش قرار دے کر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم نے کہا ہے کہ یہ بل اسمبلی سے بغیر بحث کرائے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا جو کہ پارلیمانی روایات کے بھی خلاف ہے اور میڈیا کی آزادی کے بھی مخالف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل پر اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر آ گئے ہیں اور سب مل کر میڈیا کو زیر اثر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بل میں شامل دفعہ 11-A کے تحت ممبرز کے استحقاق کی خلاف ورزی قابل سزا جرم ہو گی، بل کے تحت جوڈیشل کمیٹی بنائی جائے گی اور جوڈیشل کمیٹی کے پاس 6 ماہ قید کی سزا اور 10 ہزار روپے تک جُرمانہ کرنے کے اختیارات ہوں گے۔
اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی ہوں گے جو خود ہی سزا و جزا کا فیصلہ کریں گے۔ اس بل کے تحت کسی ممبر کے استحققاق کو مجروح کیا گیا تو سپیکر پنجاب اسمبلی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔
اس بل کے تحت اگر کوئی ایم پی اے ایوان کے اندر کی گئی تقریر میں رد و بدل کی رپورٹنگ کے حوالے سے سپیکر کو شکایت کرے گا تو وہ بھی قابل گرفت سمجھ جائے گا۔ اس بل کے تحت سپیکر کے کنڈکٹ پر بھی کوئی بات نہیں کی جا سکے گی جبکہ سرکاری محکموں کے افسران اگر اسمبلی بلانے پر نہ آے تو وہ بھی قابل گرفت ہوں گے۔
اگر کسی محکمے کی طرف سے غلط جواب اسمبلی کو بھیجا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی اسمبلی کے ملازمین کی ڈیوٹی کے دوران مداخلت کرنے پر بھی متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی ہوگی اسپیکر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی بھی شخص کی سزا کم یا بڑھا سکتا ہے۔
بل کے تحت اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کو ایک دن کے اندر سزا دینے کے اختیارات ہوں گے اور اگر کسی اسمبلی رکن کا استحقاق مجروح ہوتا ہے تو اسپیکر کے پاس اختیارات ہون گے کے وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ آفیسر کو کہہ کر گرفتاری کروا سکتا ہے۔
اس معاملے میں جوڈیشل کمیٹی بنانے اور اس میں کتنے ارکان رکھنے ہیں، یہ اختیار بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو حاصل ہوگا۔
سیاسی موقف اور صحافیوں کا ردعمل
ممبر تحفظ استحقاق بل پیش کرنے والے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی مخدوم عثمان محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹ نے یہی بل 2014 میں پاس کیا اور یہ کوئی غیر قانونی یا خلاف ضابطہ نہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ملک کی تمام اسمبلیوں نے ایسے بل پاس کر رکھے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب اسمبلی میں پریولیجز ایکٹ 1972 کے بعد اب یہ بل پاس کیا گیا جس میں موجودہ دور کی ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جارہی ہے اور یہ بل 1973 کے آئین میں ایسے قوانین بنانے کی اجازت کے تحت ہی منظور ہوا ہے۔‘
مخدوم عثمان نے کہا کہ ’ہم نے میڈیا پر یا بیوروکریٹ سے متعلق ایسا قانون نہیں بنایا جو ان کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہو۔‘
’انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پہلے اسمبلی میں یا باہر کسی کی حق تلفی، بد کلامی یا غلط رپورٹنگ پر کارروائی نہیں ہوتی؟ ہم نے صرف ایوان میں یا کمیٹیوں سے متعلق غلط رپورٹنگ یا لڑائی جھگڑے کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا کا بل پاس کیا ہے اس میں میڈیا کی آزادی یا کسی کے حقوق کیسے سلب ہوگئے ہیں؟‘
ان کے مطابق یہ قانون سازی سب کے لیے بہتر ہے کیونکہ ہر ایک کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔
اس معاملے پر مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت اس بل کی مخالف ہے یا حامی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب صحافی تنظیموں نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ پنجاب اسمبلی میڈیا کمیٹی نے بل واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
صدر پریس کلب لاہور ارشد انصاری نے کہا کہ ’یہ بل کسی بھی صورت قانون نہیں بننا چاہیے اس لیے گورنر پنجاب کو چاہیے کہ اس پر دستخط کرنے کی بجائے واپس اسمبلی کو بھجوائیں تاکہ اراکین اس پر بحث کریں اور ہمارے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون بنایا جائے ورنہ ہمارا احتجاج جاری رہے گا اگر سیاسی جماعتیں صحافیوں کے حقوق اور میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے لیے ایک ہو سکتی ہیں تو پھر صحافی بھی متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔‘