خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی تاریخی الیاسی مسجد جایا جائے اور وہاں کے مشہور پکوڑے نہ کھائے جائیں تو اس سیر کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
یہ مسجد ایبٹ آباد کے مرکزی شہر سے تقریباً سات کلومیٹر پر واقع گاؤں نواں شہر میں واقع ہے، جہاں ملک بھر سے سیاح یہ مسجد دیکھنے آتے ہیں اور یہاں کے مشہور پکوڑوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یہ دکان تقریباً 80 سال سے قائم ہے، جس کا نام اب ’فرینڈز پکوڑے‘ رکھا گیا ہے۔ دکان کے مالک اسد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی چوتھی پشت اب پکوڑوں کے کاروبار اور اس دکان سے وابستہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ان کے بزرگ اسی دکان میں پکوڑے فروخت کرتے تھے، جب اس علاقے میں کم ہی لوگ تھے اور صرف یہی الیاسی مسجد قائم تھی۔
اسد نے بتایا: ’اس دور سے لوگ اس مسجد کے چشمے کو دیکھنے آتے ہیں اور ساتھ میں پکوڑوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہے۔‘
اسد نے بتایا کہ ان پکوڑوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عام پکوڑوں سے مختلف طریقے سے بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے بنایا گیا مصالحہ بھی مختلف ہوتا ہے، تاہم انہوں نے پکوڑوں کی ترکیب نہیں بتائی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں تین قسم ہے پکوڑے دستیاب ہوتے ہیں، جن میں آلو والے، چپس والے اور پیاز والے پکوڑے شامل ہیں۔
اسد کے مطابق زیادہ تر لوگ آلو والے پکوڑے پسند کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ان پکوڑوں میں کچھ خاص تو ضرور ہے تب ہی لوگ آ کر انہیں شوق سے کھاتے ہیں۔‘
پکوڑوں کی یہ دکان مسجد سے بالکل متصل ایک چھوٹی مارکیٹ میں واقع ہے۔ اسی دکان کے ساتھ اب تین چار مزید دکانیں بھی بنائی گئی ہیں لیکن اسد کے مطابق ان کی دکان سب سے پرانی ہے۔
الیاسی مسجد کی تاریخ
الیاسی مسجد کی نچلی منزل میں ایک چشمہ موجود ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہر وقت پانی سے بھرا رہتا ہے اور اسی پانی کو وضو اور دیگر ضروری کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض افراد سمجھتے ہیں کہ اس چشمے میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ کچھ سیاح آکر اسی چشمے کے پانی سے منہ ہاتھ دھوتے ہیں جبکہ چشمے کے ساتھ ہی غسل خانے بھی بنائے گئے ہیں اور قریب ہی مسجد کے اندر دو تالاب بھی بنائے گئے ہے جہاں پر وضو کا انتظام کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم فی الوقت یہ چشمہ سوکھا ہوا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ سے جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ گرمیوں کے ایک دو ماہ کے دوران سوکھ جاتا ہے۔
تاہم اسی علاقے کے رہائشی ایک بزرگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ چشمہ پہلے کبھی نہیں سوکھا، لیکن اب پانچ چھ مہینے ہوگئے کہ چشمے میں پانی ختم ہوگیا ہے اور یہ سوکھ گیا ہے لیکن وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔‘
ایبٹ شہر میں واقعی تاریخی الیاسی مسجد کے قیام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔
بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی کے پروفیسرز کی ایک تحقیق کے مطابق اس مسجد کو پہاڑ سے نکلنے والی ایک ندی کے اوپر 1932 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تحقیقی مقالے کے مطابق یہ ایبٹ آباد شہر کی سب سے پرانی اور بڑی مسجد ہے۔ مسجد انتظامیہ کے مطابق یہاں تقریباً 10 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔
اسی مقالے میں درج ہے کہ اس مسجد کے نچلے حصے میں موجود چشمے کے پانی کو لوگ شفا کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہاں سے لوگ پینے کے لیے بھی پانی لے کر جاتے ہیں۔