اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں طلب کیے جانے کے معاملے پر اپنے ردعمل میں سوال اٹھایا ہے کہ چیئرمین نیب نے عثمان بزدار کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا؟
نیب نے طاہر خورشید کو آٹھ جولائی کو طلب کرتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ملکیت منقولہ، غیر منقولہ، خریدی گئی، فروخت شدہ یا زیر استعمال جائیداد کی مکمل تفصیلات فراہم کریں۔
طاہر خورشید کو گذشتہ برس کے آخر میں عثمان بزدار کے پرنسپل سیکریٹری کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان سے خود درخواست کی تھی کہ طاہر خورشید کو ان کے ساتھ تعینات کیا جائے۔
اس معاملے پر ہفتے کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
عظمیٰ بخاری نے چیئرمین نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار نے 16-2015 میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کی رہنما نے کہا کہ طاہر خورشید کو نوٹس مل گیا لیکن اس کا بھی وہی حال ہوگا جو عثمان بزدار کو دیے گئے نوٹس کا ہوا تھا۔ ’بزدار صاحب کو ایک دن چائے پر بلایا اور پھر پتہ نہیں کہ کیا ہوا؟ چینی اور آٹا سکینڈل کا کیا ہوا؟ لگژری گاڑیوں کے معاملے کا کیا ہوا؟ نیب عمران خان کا کٹھ پتلی ادارہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عظمیٰ بخاری نے چیئرمین نیب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام حقائق سے پتہ نہیں چل رہا کہ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہ سب جانتے ہیں لیکن جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرنا چاہتے۔‘
ساتھ ہی نے کہا: ’میں چیئرمین نیب سے درخواست نہیں کروں گی بلکہ پر زور انداز میں کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور یہ ثابت کریں کہ آپ غیر جانبدار ہیں۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا: ’حکومتیں جب جاتی ہیں تب فائلیں کھلتی ہیں، لیکن ان کی تو کافی چیزیں ابھی سے سامنے آگئی ہیں۔ کچھ چیزیں میرے پاس بھی ہیں۔ عثمان بزدار وسیم اکرم پلس کے کارنامے عوام کے سامنے ضرور لاؤں گی۔‘
مسلم لیگ ن کی رہنما نے وزیراعظم عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس عمرن خان پر بنتا ہے۔
’2013 کے انتخابات سے پہلے انہوں نے ایک کروڑ 40 لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے تھے، 2015 میں کوئی جادو کا چراغ ان کے پاس آیا کہ اثاثے بڑھ کر ایک ارب 35 کروڑ روپے ہوگئے۔ ان پر ںوٹس کیوں نہیں لیا جاتا۔‘
عظمیٰ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کے ذرائع آمدن کیا ہیں، یہ ان کے پارٹی کے لوگوں کو بھی نہیں معلوم تو باقی لوگوں کو کیا پتہ ہوگا۔‘