’یہ ریاست اور اس کے ادارے حتیٰ کہ پوری دنیا کا ماحول پدر شاہی پر مبنی ہے۔ خواتین کے لیے اس ماحول میں بہت گھٹن ہے۔ اگر مرد حضرات سڑک کے کنارے بھی رقص کریں تو معیوب نہیں سمجھا جاتا لیکن ایک عورت بے شک کسی نجی محفل میں صرف خواتین کے سامنے ہی رقص کرلے تو اسے لوگوں کے طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔‘
یہ وہ خیالات تھے جن کی وجہ سے عزیمہ الیاس پاکستان کے مقتدر اداروں کی عمارتوں کے سامنے ایک خاموش اور منفرد احتجاج کرنے کی طرف راغب ہوئیں۔ اس احتجاج میں صرف دو ہی خواتین نے شرکت کی۔ آمنہ مواز خان جو کہ ایک سماجی کارکن، رقاصہ اور سیاسی ورکر ہیں اور عزیمہ الیاس جو اسلام آباد میں سیاست کی طالب علم اور ایک شوقیہ فوٹو گرافر ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس احتجاج میں شریک دونوں خواتین سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
عزیمہ الیاس نے بتایا: ’میں چاہتی تھی کہ شاہراہ دستور پر موجود مقتدر عمارتوں کے سامنے کچھ ایسی تصاویر لی جائیں جن سے دیکھنے والوں کو ایک ٹھوس پیغام پہنچے۔ میں آمنہ کو عورت آزادی مارچ کی وجہ سے جانتی تھی اور سوشل میڈیا پر ان سے رابطے میں تھی۔ یہ خیال ان کے سامنے رکھا تو وہ راضی ہو گئیں۔‘
دوسری جانب آمنہ مواز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ ایک احتجاجی پراجیکٹ تھا۔ ہم ملک میں ہونے والی قانون سازی، جس میں اکثر پدر شاہی یا مردانہ غلبے کی جھلک ہوتی ہے، کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس لیے ہم نے سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم عمران خان کے دفتر کے سامنے اپنا احتجاج اپنے انداز میں ریکارڈ کروایا۔‘
احتجاج میں لی گئی تصاویر کا مطلب کیا ہے؟
آمنہ مواز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے تصاویر میں بھرت ناٹیم رقص کا انداز اپنایا ہے مگر مُدرا انہوں نے اپنے تجربے سے اخذ کیے ہیں۔
بھرت ناٹیم ایک کلاسیکی رقص ہے جسے ہندوستان بالخصوص ریاست تامل ناڈو میں مذہبی طور پر پرفارم کیا جاتا ہے۔ بھرت ناٹیم میں ہاتھوں، پیروں اور انگلیوں کی حرکت سے جسم کے مختلف انداز پیش کیے جاتے ہیں، جنہیں مُدرا کہا جاتا ہے۔ یہ مدرا بامعنی ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے رقص پرفارم کرنے والا دیکھنے والوں کو کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔
آمنہ مواز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے اپنے مدرا کے معنی بیان کیے ہیں جو یہ ہیں:
احتجاج کے لیے رقص کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر آمنہ مواز خان نے بتایا کہ ’عوام کی ایک بڑی تعداد کو بڑے بڑے الفاظ جیسا کہ معاشی عدم استحکام، سماجی ناہمواری یا جدلیت وغیرہ کی سمجھ نہیں آتی، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں ایسے انداز میں سمجھایا جائے جسے وہ سمجھ سکیں۔ میرے خیال میں پرفارمنگ آرٹ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو با آسانی کچھ بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔‘
اسی سوال پر عزیمہ الیاس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’رقص اور گھنگروؤں کو ہمارے معاشرے میں انتہائی منفی سوچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گھنگروؤں کو تو خاص طور پر لوگ سیکس ورکرز کے ساتھ منسلک کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ اس لیے احتجاج کا یہ انداز اپنایا گیا تاکہ مضبوط انداز میں اپنا موقف پیش کیا جا سکے۔‘
رقص کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروانے والی خواتین ہیں کون؟
آمنہ مواز خان کا تعلق راولپنڈی سے ہے مگر ان کا بچپن اسلام آباد میں گزرا۔ انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے مطالعہ پاکستان میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور اندو مہتا سے کلاسیکی رقص بھرت ناٹیم کی تربیت حاصل کی ہے۔ آمنہ عوامی ورکرز پارٹی کی رکن ہیں اور 2015 میں اسی پلیٹ فارم سے اسلام آباد کے ایف ایٹ سیکٹر میں لوکل باڈیز الیکشن میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق اور کچی آبادیوں کے تحفظ کے لیے قائم تنظیموں کی بانی رکن بھی ہیں۔ آمنہ ’لال ہڑتال‘ نامی ایک سٹریٹ تھیٹر سے وابستہ ہیں جو عوام میں پرفارمنگ آرٹ کے ذریعے مسائل اور حقوق کا شعور اجاگر کرنے کو کوشش کررہا ہے۔
عزیمہ الیاس کا تعلق پشاور کے پشتون گھرانے سے ہے۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم فِل کر رہی ہیں۔ عزیمہ نے بتایا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ وہ انفرادی طور پر خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔