پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پہلی بار پرانے قرآن، پاروں اور دیگر مقدس تصور کیے جانے والے اوراق کو باقاعدہ محفوظ بنانے کا منصوبہ مکمل ہو گیا ہے۔
محکمہ اوقاف پنجاب کے ترجمان آصف اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شہریوں نے مقدس اوراق کو محفوظ بنانے کے مطالبے پر مشتمل کئی درخواستیں بھیجی تھیں، جس کے بعد صوبائی حکومت نے 2017 میں مختلف شہروں میں ایسے اوراق کو محفوظ بنانے کے لیے ’قرآن محل‘ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس پر تیزی سے کام شروع کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، بہاول پور، بھلوال، گجرات، راول پنڈی اور ملتان میں سات خوبصورت قرآن محل تعمیر کیے جا چکے ہیں جبکہ حافظ آباد میں زمین کی ملکیت سے متعلق عدالتی سٹے آرڈر کے باعث ایک قرآن محل کی تعمیر رکی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ قرآن محل چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں جہاں کوئی بھی قرآن کے ضعیف نسخے یا مقدس اوراق ایک بیگ میں ڈال کر جمع کرا سکتا ہے۔
پاکستان میں اسلامی تعلیم اورعبادات کے لیے مدارس اور مساجد کے اندر بڑی تعداد میں قرآن و احادیث اور دیگر اسلامی کتب موجود ہیں۔
ان میں سے ضعیف اور پھٹ جانے والی کتابوں اور ان کے اوراق کو محفوظ بنانے کے لیے اکثر دریا برد یا کسی جگہ پر اکھٹا کر لیا جاتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نوید احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ 20 سال سے مدارس اور مساجد میں موجود ضعیف قرآن و احادیث کی کتابیں یا اوراق جمع کر کے درائے راوی میں ڈال رہے ہیں تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وہ غلہ منڈی میں کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ کام صرف اللہ کی رضا اور ثواب کمانے کے لیے کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کام کے لیے انہوں نے جمعے کا دن مقرر کر رکھا ہے۔ وہ ہر جمعے اپنی گاڑی پر نکلتے ہیں اور مختلف علاقوں کی مساجد یا مدارس سے ضعیف اوراق جمع کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اب قرآن محل بننے کے بعد وہ ان اوراق کو حسب معمول بیگز بنا کر محفوظ کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے قرآن محل تعمیر کر کے بڑی سہولت فراہم کی ہے۔ اب لوگوں کو مقدس اوراق دور دراز دریاؤں، نہروں میں ڈالنے کے لیے نہیں جانا پڑتا۔
’دوسرا یہ کہ پہلے آبادی کے قریب ہی انہیں کہیں دفن کیا جا سکتا تھا مگر اب آبادیاں بڑھ گئی ہیں لہٰذا ایسی جگہ بھی مشکل سے ہی ملتی ہے جہاں ان اوراق کو دفن کیا جا سکے۔‘