’بھارت میں ہندو اور مسلمان الگ نہیں۔ ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے۔ اگر کوئی ہندو کہتا ہے کہ مسلمان یہاں نہیں رہ سکتے تو وہ ہندو نہیں ہو سکتا۔ بھارت ہندو راشٹر ہے۔ یہاں گائے ماتا پوجی جاتی ہے لیکن اس کے نام پر لنچنگ کرنے والے ہندوتوا کے مخالف ہیں۔‘
یہ الفاظ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے ہیں، جن کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز اترپردیش کے شہر غازی آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔
22 کروڑ سے زائد آبادی والی ریاست اترپردیش میں اگلے سال یعنیٰ 2022 کے اوائل میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس ریاست کے انتخابی نتائج بھارتی پارلیمانی انتخابات کے لیے ’پیش لفظ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اپنی تقریر کے دوران ہی موہن بھاگوت کو یہ احساس ہوا کہ مسلمانوں سے متعلق ان کی باتوں کو اترپردیش کے انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جائے گا جس کا اندازہ ان باتوں سے ہوتا ہے۔۔
’یہ اگلے انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ایکسرسائز نہیں کیوں کہ ہمارا انتخابی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ساکھ بہتر کرنے کی بھی کوئی ایکسرسائز نہیں۔ سنگھ کو ساکھ کی پرواہ نہیں۔ ہمارا کام سب کو جوڑنا ہے لہٰذا ہمیں روپ بدلنے کی ضرورت نہیں۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایک ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے لیے سرگرم آر ایس ایس کی سب سے بڑی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے اور موہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ ’ہمارا انتخابی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں‘ ناقابل یقین بیان ہے۔
کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما دگوجے سنگھ نے موہن بھاگوت کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا: ’اگر ہندو اور مسلمان کا ڈی این اے ایک ہے تو پھر مذہب تبدیلی قانون اور لو جہاد قانون کی کیا ضرورت ہے؟‘
کیا آر ایس ایس بدل گئی ہے؟
ڈاکٹر شمس الاسلام دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور متعدد کتابوں بشمول ’آر ایس ایس ایز اے ٹیرر آؤٹ فٹ‘ اور ’انڈین فریڈم موومنٹ اینڈ آر ایس ایس: اے سٹوری آف بیٹریل‘ کے مصنف ہیں۔
انہوں نے موہن بھاگوت کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’آج جب ہندوؤں نے ان کی سیاسی شاخ بی جے پی کو ووٹ دینا بند کیا ہے تو یہ مسلمانوں کے ہمدرد بننے کا ڈرامہ کرنے لگے ہیں۔
’مغربی بنگال اور تمل ناڈو کے انتخابات نے ان کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ اب جب ہندی بیلٹ میں انتخابات ہیں تو انہیں مسلمانوں کی یاد آ رہی ہے۔
’اگر مسلمانوں کے تئیں ان کا نظریہ واقعی بدل گیا ہے تو 1925 سے آج تک ان لوگوں نے مسلمانوں پر جتنے بھی مظالم ڈھائے ہیں وہ ان کے لیے معافی مانگیں۔ ان لوگوں نے تو مہاتما گاندھی جیسے کٹر ہندو کو بھی نہیں بخشا۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کے مطابق بھارتی مسلمانوں کے لیے موہن بھاگوت پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے ماضی میں کہا کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اگر رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہوگا۔
’اہم بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت تب یہ بول سکتے ہیں کہ مسلمان اور ہندو ایک ہیں تو کیا وہ اپنے پیش رو مادھو سدا شیو گولوالکر کی تعلیمات کا انکار کریں گے۔ اُن کی کتابوں کو جلائیں گے۔
’گولوالکر، جن کے بارے میں نریندر مودی سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ انہیں ایک سیاست دان اس انسان نے بنایا ہے، نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ کے سولہویں باب میں مسلمانوں، مسیحوں اور کمیونسٹوں کو بھارت کے لیے اندرونی خطرہ قرار دیا ہے۔
’تو کیا آج موہن بھاگوت اس کتاب کو مسترد کرتے ہیں؟ اس کتاب پر عمل کر کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے کیا موہن بھاگوت ان مظالم پر مسلمانوں سے معافی مانگیں گے؟
’گولوالکر کی اس سے بھی خطرناک کتاب ’وی آر آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ‘ ہے جو 1939 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا نچوڑ یہ ہے کہ اس دیش کے مسلمانوں اور مسیحوں کے ساتھ ہم نے وہی کرنا ہے جو یہودیوں کے ساتھ ہٹلر اور مسولونی نے کیا تھا۔
’آر ایس ایس کے سابق گرو اور ہندوتوا کے آئیکن ونایک دامودر ساورکر نے 'ہندوتوا' نامی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ مسلمان اور مسیحی ہندو راشٹر کا حصہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کو سنسکرت نہیں آتی، ان کی رگوں میں آرین خون نہیں دوڑتا اور ان کے مقدس مقامات ہندوستان میں نہیں۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام نے بتایا: ’آج موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ گائے کے نام پر لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں، لیکن میرا ماننا ہے کہ لنچنگ آر ایس ایس کی دین ہے۔ اس ملک میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد لنچنگ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
’گولوالکر نے لکھا کہ اسلام کے ظہور کے بعد ہی گائے کو ذبح کرنے کا عمل شروع ہوا لیکن یہ ایک سراسر جھوٹ ہے کیوں کہ عرب میں تو گائیں نہیں ہوتی تھیں۔
’بھارت میں بی جے پی کی حکومت والی نو ریاستوں میں گائے کا گوشت آفیشلی ملتا ہے، یعنیٰ سرکاری ذبح خانوں میں گائے کٹتی ہے۔ جو لوگ محض شک کی بنا پر مسلمانوں کو لنچ کرتے ہیں وہ کیوں نہیں جا کر گوا کے وزیر اعلیٰ کو سبق سکھاتے۔
’ہندو مذہب کی کتابوں میں ہے کہ بھگوان اندرا دیو کے سواگت (خیر مقدم) میں تین ہزار گائیں کاٹی گئیں۔ سوامی وویکانند نے لکھا کہ قدیم ہندوستان میں گوشت کھانا برہمن ہونے کی ایک شرط ہوتی تھی۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے دہرے معیار کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف موہن بھاگوت غازی آباد میں مسلمانوں اور ہندو میں فرق نہ ہونے کی باتیں کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف اسی تنظیم سے جڑے لوگ مسلمانوں کو بھارت سے باہر نکالنے اور ان کی خواتین کا ریپ کرنے کی ہندوؤں کو ترغیب دے رہے ہیں۔
’ہریانہ کے گڑگاؤں میں چند دن پہلے ایک ہندو تنظیم کے زیر اہتمام تین روزہ جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں ہریانہ کے بی جے پی ترجمان اور شدت پسند ہندو تنظیم کرنی سینا کے سربراہ سورج پال امو نے کھلے عام کہا کہ مسلمانوں کو بھارت سے باہر کھدیڑنا ہوگا۔
’وہ لڑکا جس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر گولی چلائی، اور جسے گرفتار بھی نہیں کیا گیا تھا، نے اسی جلسے میں کہا کہ ہمیں مسلمان لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کا ریپ کرنا چاہیے۔
’اس جلسے کے شرکا کوئی اور نہیں بلکہ آر ایس ایس کے لوگ تھے۔ ان کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی پر کوئی مقدمہ بھی درج نہیں ہوا۔ ہم ان کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی سنوائی نہیں ہو رہی۔ میں ان بیانات کے خلاف بذات خود عدالت جانے کا سوچ رہا ہوں۔‘
'یہ لوگ ناقابل بھروسہ ہیں'
بھارت کے معروف نیوز پورٹل 'مسلم مرر ڈاٹ کام' کے ایڈیٹر سید زبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے موقف میں عارضی لچک کی بنیادی وجہ قومی و بین الاقوامی دباؤ اور انتخابات میں ہار ہے۔
’ان پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ آج دنیا بھر میں آر ایس ایس کی پہچان ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر ہو رہی ہے۔
’یہاں یہ لوگ الیکشن ہارنے لگے ہیں۔ مغربی بنگال میں ہار گئے۔ ان کے ایک رہنما نے مسلمانوں کے علاقے سے الیکشن لڑا لیکن وہ پانچ ووٹ بھی حاصل نہیں کر پایا۔
’یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر آر ایس ایس کو اپنے موقف میں لچک لانا پڑی ہے۔ لیکن یہ لوگ ناقابل بھروسہ ہیں۔ کبھی بھی یو ٹرن لے سکتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں ہر بار تضاد دیکھا گیا ہے۔‘
سید زبیر کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سربراہ کا یہ کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا انتخابی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ایک جھوٹ ہے۔
’جہاں پر بی جے پی اقتدار میں آ جاتی ہے وہاں پر آر ایس ایس بہت مضبوط ہو جاتی ہے۔ ان کی شاکھاؤں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بی جے پی اقتدار میں ہوگی تب ہی آر ایس ایس اپنا کام کھل کر کر سکتی ہے۔‘
'موہن بھاگوت کا بیان ہمارے موافق'
قریب دو درجن بھارتی مسلم تنظیموں کے اتحاد آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سیکرٹری مولانا عبد الحمید نعمانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں بحیثیت بھارتی مسلمان اس طرح کے بیانات کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
’موہن بھاگوت کا بیان ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے موافق ہے۔ اس بیان کی وجہ سے ہندوتوا کے حلقوں میں برہمی چھائی ہوئی ہے۔
’اس بیچ ہمیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ اپنی باتیں باتوں تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ عملی اقدامات اٹھائیں۔ آپ نے شہریت کا نیا قانون نافذ کر کے ہم مسلمانوں کو الگ کر دیا۔ اب ہم کیسے مانیں کہ یہاں سب ایک ہیں؟
’موہن بھاگوت کی باتیں تب معنی خیز ثابت ہوں گی جب وہ ان کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ آپ لنچنگ کرنے والوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آپ کے رہنما الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں۔ آپ کارروائی نہیں کریں گے۔ ان کے خلاف بولیں گے نہیں تو آپ کا بیان سوالات کی زد میں آئے گا یا تضاد کا شکار ہوگا۔‘
مولانا نعمانی کہتے ہیں کہ ہندو نظریہ سازوں کو افسوس ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے سماج میں شامل نہیں کر سکے۔
’ماضی میں دوسری قومیں اور قبائل کے لوگ ہندو سماج کا حصہ ہو گئے۔ لیکن مسلم سماج کو یہ اپنے سماج میں ہضم نہیں کر سکے۔‘
آر ایس ایس سے متعلق بعض 'حقائق'
ڈاکٹر شمس الاسلام نے آر ایس ایس سے متعلق بعض 'حقائق' کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس نے 1940 کی دہائی میں بھارتی آئین اور بھارتی ترنگے کو ماننے سے انکار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب 26 نومبر، 1949 کو آئین ساز اسمبلی نے بھارتی آئین کی منظوری دی تو اس کے محض چار دن بعد آر ایس ایس نے ایک ایڈیٹوریل میں لکھا کہ ہمیں یہ آئین منظور نہیں بلکہ یہاں کا نظام منوسمرتی نامی مذہبی کتاب پر چلے گا۔
’منوسمرتی مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہندو عورت اور ہند شودر کے خلاف ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ہندو عورت کا کام بچے پیدا کرنا اور گھر کو چلانا ہے۔ ہٹلر کے وزیر داخلہ ہائنرش ہملر کے ذاتی بیگ میں دو کتابیں ہوتی تھیں اور وہ منوسمرتی اور گیتا ہیں۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کے مطابق آر ایس ایس نے 14 اگست، 1947 یعنی بھارت کی آزادی سے ایک دن قبل اپنی تنظیم کے اخبار میں ایک ایڈیٹوریل لکھا جو ترنگے جھنڈے کے خلاف تھا۔
’ایڈیٹوریل میں لکھا گیا تھا کہ جو لوگ قسمت کے داؤ سے گدی پر آ بیٹھے ہیں اُن کو اس ملک کے ہندو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ترنگے جھنڈے کو کبھی منظور نہیں کریں گے اس کی عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ تین رنگ والا جھنڈا اپنے آپ میں منحوس ہوتا ہے۔‘