’ہمارے ایک ڈسٹری بیوٹر نے مال کی فراہمی کے ساتھ دوائیوں کی اصل قیمت کے علاوہ نیا ٹیکس وصول کرنے کے لیے شناختی کارڈ اور دوسری دستاویزات کا مطالبہ کیا، جو ہم نے فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور اس سے دوائیاں بھی نہیں اٹھائیں۔‘
یہ کہنا تھا راولپنڈی کے صدر بازار میں واقع دوائیوں کی ایک دکان کے مالک کا، جنہوں نے ممکنہ قانونی کارروائی کے ڈر سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا: ’نئے ٹیکس کی وجہ سے ہم دوائیاں مہنگی بیچنے پر مجبور ہوں گے اور دوسرا ہم کیوں ڈسٹری بیوٹرز کو اپنے کاغذات دیں؟ وہ حکومت تھوڑی ہے جو ہم اعتماد کر لیں ان پر۔‘
پاکستان کے مختلف حصوں میں دوائیاں فروخت کرنے والے ایسے کئی پرچون فروش ہیں جو ادویات پر نئے ٹیکس اور اس کی ادائیگی کے نظام کو رد کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 21-2020 کے دوران ادویات پر نیا (0.1 سے ایک فیصد) انکم ٹیکس عائد کیا ہے، جس کی وصولی کی ذمہ داری ٹیکس وصول کرنے والے ادارے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کی بجائے ادویات بنانے اور درآمد کرنے والی کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز پر ڈالی گئی ہے۔
دوا ساز کمپنیاں اور ڈسٹری بیوٹرز نئے ٹیکس اور اس کی وصولی کے نظام کو ملک میں دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ ادویات خصوصاً جان بچانے والی دوائیوں (لائف سیونگ ڈرگز) کی کمی کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔
تاہم وفاقی وزارت خزانہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’نہیں معلوم فارما انڈسٹری والوں کو یہ انکم ٹیکس وصول کرنے میں کیا قباحت درپیش ہے؟‘
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ نئے ٹیکس کے لاگو ہونے سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہ ٹیکس بہت کم ہے۔
’ایک ہزار روپے قیمت کی دوائی پر ایک سے پانچ روپے ٹیکس وصول ہو گا تو اس سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا کیا امکان ہو سکتا ہے؟‘
نئے نظام کے باعث ادویات کی ممکنہ قلت سے متعلق سوال پر انہوں نے اس خدشے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس دہندگان کو بہت زیادہ دستاویزات دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
’قومی شناختی کارڈ کاپی تو ہم روزانہ بیسیوں جگہ پر جمع کرواتے ہیں، تو یہاں اس میں کیا مسئلہ ہو گا؟‘
ادویات کی کمپنیوں کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی استعداد سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا ٹیکس نہیں اور نہ بہت بڑا سیکٹر ہے جس سے مسئلہ پیدا ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہی کمپنیاں اپنے ملازمین سے انکم ٹیکس وصول کر کے ایف بی آر کے پاس جمع کرواتی ہیں، تو چند ایک کلائنٹس سے بھی کر سکتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے مرکزی صدر توقیر الحق کا کہنا تھا کہ دوا ساز کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے پاس ٹیکس وصولی کے لیے درکار استعداد موجود نہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’میں کیسے تعین کروں گا کہ کوئی پرچون فروش یا ڈسٹری بیوٹرز فائلر ہے یا نہیں اور اگر اس میں غلطی ہو جائے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟‘
ان کے خیال میں رواں مالی سال کے لیے متعارف کرائے گئے اس ٹیکس نظام سے ملک میں دوائیوں کی قلت ہو سکتی ہے۔ ’خصوصاً جب ملک میں کرونا وبا موجود ہے تو ایسے میں اہم دوائیاں اس نظام کی وجہ سے مارکیٹ سے غائب ہو سکتی ہیں یا ان کی قیمتوں میں اضافہ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
توقیر الحق نے مزید کہا کہ ٹیکس کی وصولی کے نظام پر عمل در آمد کا ذمہ دار ادارہ ایف بی آر ہے اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس تربیت یافتہ عملہ اور دوسرے وسائل دستیاب ہیں۔
’جب ایک ادارہ موجود ہے تو آپ مجھ پر یہ ذمہ داری کیوں ڈال رہے ہیں کہ میں یہ نیا ٹیکس وصول کروں؟‘
ادویات کی قلت ہو سکتی ہے؟
توقیر الحق کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکس کی وصولی دوا ساز کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے ممکن نہیں، اس لیے بہت ساری دوائیاں مارکیٹ تک نہیں پہنچ پائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرچون دوا فروشوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس ٹیکس کی وصولی کو پسند نہیں کرے گی اور عین ممکن ہے کہ وہ ایسی کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ادویات نہ خریدیں جو نئے نظام کے مطابق چلنے پر مصر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کم از کم 40 ہزار رجسٹرڈ پرچون ڈرگ سٹورز ہیں جبکہ بہت بڑی تعداد میں غیر رجسٹر شدہ کاروبار بھی موجود ہیں۔
’یہ سب کے سب ہمیں ٹیکس ادا کرنے پر راضی نہیں ہوں گے اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ان میں سے کئی ہماری دوائیاں نہیں خریدیں گے، جو مارکیٹ میں بعض ادویات کی قلت کی وجہ بن سکتی ہے۔‘
اس سلسلے میں توقیر الحق نے خصوصاً کووڈ 19 کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو اینٹی بائیوٹیک ایریتھرومائیسین کی گولیاں دی جاتی ہیں جبکہ ٹیکسامیکازون نام کے سٹیرائیڈز بھی اس مہلک بیماری کا شکار ہونے والے استعمال کرتے ہیں۔
’اب اگر ٹیکس کے اس نئے نظام کی وجہ سے پرچون ادویات فروشوں نے یہ دوائیاں اور اس طرح کی دوسری کئی ادویات اٹھانا بند کر دیں تو مارکیٹ میں قلت پیدا ہونے کا قومی خدشہ موجود ہے۔‘
راولپنڈی کے صدر بازار کے دوا فروش نے کہا کہ انہوں نے ڈسٹری بیوٹرز سے جو دوائیاں نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے نہیں خریدیں ان میں ملٹی وٹامن گولیاں اور کچھ اینٹی بائیوٹیکس شامل تھیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ابھی تو میرے پاس کچھ سٹاک موجود ہے لیکن اگر ایسا ہی جاری رہا تو ظاہر میں یہ ادویات نہیں بیچوں گا۔‘
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں واقع دوائیوں کی ایک دکان کے مالک اشفاق احمد ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یکم جولائی سے ان کے ڈسٹری بیوٹرز ادویات پر نیا ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوٹرز ہمیں خریدی گئی ادویات کا بل دیتے ہیں تو اسی میں اصل قیمت کے علاوہ نیا ٹیکس بھی لکھتے ہیں اور وہ انہیں ادا کرنا پڑتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا نئے ٹیکس کے باعث دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے؟ اشفاق احمد ملک کا کہنا تھا: ’ظاہر ہے میں جب دوائی مہنگی خریدوں گا تو آگے بھی مہنگی ہی بیچوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ دوائیوں کی قیمتوں پر کوئی خاطر خواہ حکومتی چیک موجود نہیں جس کی وجہ سے ان میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اشفاق احمد ملک نے کہا کہ ایک کمپنی کی ملٹی وٹامن گولیاں جو کچھ عرصہ پہلے تک 225 روپے میں فروخت ہو رہی تھی اب ان کی قیمت 245 روپے ہو گئی ہے۔
اسی طرح انہوں نے کہا کہ کیلشئیم کی ایک دوائی کی قیمت 145 روپے سے 180 پر پہنچ گئی ہے جبکہ ایریتھرومائیسین گولیوں کی قیمت میں 16 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے یہ قیمتیں مزید اوپر جائیں گی۔
توقیر الحق کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے سیریس مریضوں کو دی جانے والی دوائی ریمڈیسوئیر دوائی پاکستان میں کم از کم 17 دوا ساز کمپنیاں تیار کر رہی ہیں جبکہ یہ بیرون ملک سے درآمد بھی ہو رہی ہے۔
نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
نیا انکم ٹیکس نظام ہے کیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بجٹ میں ادویات سے متعلق صنعت کے لیے ٹیکس کا نیا نظام متعارف کروایا ہے، جس کے تحت دوا ساز اور ادویات درآمد کرنے والی کمپنیاں اور ڈسٹری بیوٹرز اپنے اپنے کلائنٹس سے نیا انکم ٹیکس وصول کریں گے۔
اس مقصد کے لیے حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 236 کے سب سیکشن G اور H میں دواساز کمپنیوں، ڈسٹری بیوٹرز اور ادویات درآمد کرے والی کمپنیوں کو شامل کر دیا ہے۔
حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کے ذریعے دواساز اور ادویات درآمد کرنے والی کمپنیوں کو پابند بنایا ہے کہ وہ پر فروخت پر اپنے کلائنٹ سے 0.1% (فائلر سے) اور 0.2% (نان فائلر) سے وصول کریں گے جبکہ ادویات کے ڈسٹری بیوٹرز 0.5 فیصد فائلرز سے اور ایک فیصد ٹیکس نان فائلرز سے وصول کریں گے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت نئے ٹیکس کے وصول کنندہ جمع شدہ رقم ایک ہفتے کے اندر ایف بی آر کے پہنچانے کے پابند ہوں گے۔
توقیر الحق کا کہنا تھا: ’نہیں معلوم کہ جو دوائیاں کمپنی کو واپس آتی ہیں یا ایکسپائر ہو جاتی ہیں تو ان پر لگایا گیا اور وصول ہونے والے ٹیکس کا کیا بنے گا؟‘