دارالحکومت اسلام آباد میں گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، زیادتی اور جبری مشقت کی شکار خواتین اور بچوں کی مدد کے لیے قائم یونٹ کو اب تک 131 شکایات موصول ہوچکی ہیں جن میں سے 46 حل ہو چکی ہیں۔
پولس کے مطابق خواتین یا بجوں پر تشدد سے متعلق کسی بھی شکایت کی صورت میں اسلام آباد پولیس کے جینڈر پروٹیکشن یونٹ کو 8090 ہیلپ لائن پر کال کی جا سکتی ہے اور پولیس کی ٹیم مدد کے لیے فوری بھیج دی جاتی ہے۔
رواں برس مئی کے آخری ہفتے میں قائم ہونے والا یہ یونٹ چھ ہفتوں میں کتنا کامیاب رہا اور کام کیسے کرتا ہے اور اس میں اب تک کتنی شکایات آئی ہیں۔ ان تمام سوالات کے جواب کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ایس ایس پی آپریشنز مصطفیٰ تنویر سے بات کی۔
ایس ایس پی آپریشنز مصطفیٰ تنویر نے بتایا کہ یونٹ کے قیام سے پہلے پولیس نے کچھ مسائل اور پہلوؤں کی شناخت کی جن پر کام کرنا ضروری تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’خواتین کا پولیس سٹیشن بھی موجود ہے، اس کے علاوہ بھی کئی اقدامات کیے گئے لیکن جنسی اور گھریلو تشدد کے واقعات کی نشاندہی اس طرح نہیں ہو رہی تھی جیسے ہونی چاہیے تھی، اس لیے ہم نے یہ خصوصی ڈیسک تشکیل دیا جو خواتین عملے پر مشتمل ہے تاکہ خواتین اپنا مسئلہ بیان کرتے ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ جب کوئی شکایت آتی ہے تو مجاز خاتون افسر شکایت کنندہ کے پاس جاتی ہیں اور معاملے کا جائزہ لیتی ہیں جبکہ ضرورت پڑنے پر سٹینڈ بائی نفری بھی طلب کی جاتی ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز نے مزید بتایا کہ فون اور ذاتی حیثیت کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی شکایت کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونٹ کو موصول ہونے والی کچھ شکایات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک کیس ایسا تھا کہ خاتون نے بذریعہ فون اطلاع دی کہ ان کے شوہر ان پر تشدد کرتے ہیں، ان کے بال کاٹ دیے ہیں اور خاتون کو اپنے دوستوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جس سے انکار کرنے پر گھر میں باندھ کر انہیں لوہے کی راڈ سے مارا گیا اور بھیک مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
مصطفیٰ تنویر کے مطابق: ’اس واقعے کی اطلاع کے بعد خواتین افسران کی ٹیم خاتون کے پاس گئی اور میڈیکل کروانے کے بعد ان کے شوہر کو حراست میں لے لیا گیا۔ اب خاتون نے باقاعدہ ویمن پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر کا اندراج بھی کروا دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہوا کہ ملزم نے اپنی بیوی کے جسم اور ناک پر لوہے کی راڈ سے تشدد کیا۔
متاثرین کے لیے ایک ہی جگہ پر قانونی اور نفسیاتی ماہرین سمیت طبی عملے کی موجودگی کے انتظام کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس ڈیسک میں خواتین پولیس کے علاوہ لیڈی ڈاکٹر، خاتون وکیل اور ماہر نفسیات بھی شامل ہیں تاکہ جن معاملات کو قانونی، طبی یا نفسیاتی مشورے سے حل کیا جاسکتا ہے ان کو ویسے ہی حل کیا جائے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ خصوصی ہیلپ ڈیسک پر بچوں سے متعلق بھی کوئی واقعات شامل ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ خواتین، بچوں اور ٹرانسجینڈر افراد سب ہی اس یونٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ’جن پر ظلم ہو رہا ہو یہ خصوصی ڈیسک ان کے لیے ہے۔‘
جنسی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی کے حوالے سے سوال کے جواب میں ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ یونٹ کی ایک ماہ کی کارکردگی تسلی بخش ہے اور آئندہ کے لیے یہ لائحہ عمل ہے کہ یونیورسٹی کالجز میں آگاہی لیکچرز دیے جائیں تاکہ جس کو بھی مسئلہ ہو وہ بلا جھجک رابطہ کرے۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے قائم فلاحی اداروں کو بھی آگاہی مہم کے لیے ساتھ رکھیں گے۔
یونٹ کی ایک ماہ کی کارکردگی
اس خصوصی یونٹ کا ایک ماہ مکمل ہونے پر جاری ہونے والی کارکردگی رپورٹ کے مطابق 65 شکایات فون پر جبکہ 77 شکایات واک اِن تھیں۔ واک اِن شکایات میں سے 55 ایسی تھیں جن میں ملزمان کے خلاف ایکشن لینے کی استدعا کی گئی جبکہ باقی شکایات معلوماتی تھیں جس میں وقوعے کی نشاندہی کی گئی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 131 میں سے 46 شکایات ایک ماہ میں ہی حل کرلی گئی ہیں جبکہ 28 متعلقہ اداروں کو بھجوا دی گئی ہیں۔ کچھ میں مشورے دیے گئے جبکہ 43 ابھی حل ہونے کے مرحلے میں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 131 میں سے 51 شکایات گھریلو تشدد سے متعلق تھیں۔ 11 ہراسانی، نو دھمکی آمیز اور 11 ایسی شکایات تھیں جن میں ہمسایوں نے پولیس کو مطلع کیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق اس یونٹ کا اوسط ریسپانس ٹائم پانچ منٹ ہے۔