کرکٹ ایسا منفرد کھیل ہے جس میں ہر لمحے تصویر بدلتی رہتی ہے اور کبھی کبھی جیت کی راہ پر گامزن ٹیمیں سارے ہتھیار آزما کر بھی شکست کا داغ سجا لیتی ہیں اور ہارتی ہوئی ٹیمیں جیت جاتی ہیں۔
اس کھیل کے دو حصے بیٹنگ اور بولنگ ہیں جس میں سے ایک بہت اچھا کام کر بھی جائے مگر دوسرا حصہ اگر کمزور پڑ جائے تو 331 رنز بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
بولرز بھی اس وقت ہی کارگر ہوتے ہیں جب فیلڈرز پورا ساتھ دیں اور اگر کہیں فیلڈنگ میں لوچ اور سستی آجائے تو بولرز کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔
یہ سارا منظر نامہ برمنگھم کے تیسرے ایک روزہ میچ کا ہے۔ جہاں بابر اعظم کی قابل دید بیٹنگ کو بولرز اور فیلڈرز نے خاک میں ملا دیا۔
تیسرے میچ میں بابر اعظم کے ذہن میں بہت کچھ تھا۔ دو میچوں کی خراب بیٹنگ، سیریز میں شکست اور آخری میچ میں سر اٹھانے کے لیے ایک فتح۔
دل و دماغ میں سب کچھ جب ساتھ ساتھ چلنے لگا تو بابر کے بیٹ کو ہوش آگیا۔ وہ بھی ایسے رواں ہوگیا جیسے کسی سبک رفتار گھوڑے کو دوڑنے کے لیے ہموار راستہ مل جائے۔
بابر نے آغاز تو آہستہ کیا اور پہلا رن بھی 15 گیندوں کے بعد لیا لیکن وہ تہیہ کیے ہوئے تھے کہ اننگز کی آخری گیند تک جانا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، بابر کا اعتماد بڑھتا گیا نصف سنچری سے سنچری تک کا سفر تو روایتی تھا لیکن سنچری سے 158 کے انفرادی سکور تک کسی طوفان کی مانند تھا۔
جو سامنے آیا بچ نہ سکا۔ جدھر چاہا شاٹ مار کر کبھی چوکا اور کبھی چھکا لگا دیا۔
پاکستان نے جب 50 ویں اوور میں اننگز ختم کی تو بابر اعظم بہت سارے ریکارڈ بنا چکے تھے۔
تیز ترین 14 سنچریاں، انگلینڈ کی سر زمین پر سب زیادہ انفرادی سکور، کسی بھی کپتان کی سب سے بڑی اننگز اور پھر برمنگھم کے گراؤنڈ کا سب سے بڑا سکور۔
بابر نے جس عمدگی سے بیٹنگ کی اس میں محمد رضوان اور امام الحق نے بھی بھر پور ساتھ دیا۔
رضوان نے 74 رنز کی اننگز میں بابر کے ساتھ 179 رنز کی رفاقت قائم کی جو پاکستان کی کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی پارٹنرشپ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے 331 کے مجموعی سکور نے پہلی دفعہ گرین شرٹ کے پویلین میں جیت کی امید پیدا کی تھی اور میچ کے پہلے حصے میں سب کی بانچھیں کھلی ہوئی تھیں۔
انگلینڈ کی ٹیم جو پہلے دو میچوں میں یک طرفہ طور پر شاہینوں کو چاروں خانے چت کرچکی تھی، پہلی دفعہ سخت مقابلے کا سامنا کر رہی تھی۔
پہاڑ جیسا ہدف ہو اور ناتجربہ کار بیٹنگ ہو تو ٹیم میچ سے پہلے ہی بوکھلا جاتی ہے اور پھر ٹیم کا سب سے اچھا بلے باز ڈیوڈ ملان صفر پر آؤٹ ہو جائے تو رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔
لیکن انگلش بلے بازوں نے دو وکٹ جلد گرنے کے باوجود بھی جارحانہ انداز نہ چھوڑا اور سات رنز فی اوور کا جو اوسط شروع سے رکھا اسے گرنے نہیں دیا۔
اننگز کے وسط میں جب 165 رنز پر پانچ وکٹ گر گئے تو پاکستان کو جیت قریب نظر آنے لگی۔ مگر برا ہو اس فیلڈنگ کا جس نے اس قدر سستی دکھائی کہ سکائی ٹی وی پر کمنٹری کرتے ہوئے مائیکل ایتھرٹن نے تو خراب فیلڈنگ ایسے گننا شروع کردی جیسے بلے باز کے رنز گنے جاتے ہیں۔
فیلڈنگ نے جب کاہلی برتی تو بولرز بھی کمزور پڑنے لگے۔ پہلے ہی لائن سے ہٹے ہوئے تھے اب مزید خراب ہونے لگے۔
دوسری طرف انگلینڈ خراب بولنگ اور فیلڈنگ کا پورا مزہ لے رہا تھا۔
جیمز ونس تو خیر منجھے ہوئے بلے باز ہیں۔ اس لیے سکون سے رنز سکور کرتے رہے اور سنچری بنا گئے۔ لیکن میچ کی سب سے اہم بیٹنگ سمرسٹ کے لیوس گریگری کی تھی، جو 77 رنز بنا کر انگلینڈ کو جیت کے قریب لے آئے۔ ان کی اور ونس کی 129 رنز کی شراکت نے پاکستان کے ہاتھوں سے جیت چھین لی۔
گریگری نے پاکستانی بولرز کو اس طرح کھیلا کہ لگتا تھا کوئی کلب میچ ہو رہا ہو۔
سیریز میں شکست تو اتنی تکلیف دہ نہیں تھی جتنا تیسرے میچ میں اتنا بڑا سکور بنا کے بھی پاکستان بولنگ کی ناکامی کا مایوس کرنا۔
بابر اعظم جب سارا دن کی محنت کے بعد شام کے کسی لمحے میں اپنی زبردست بیٹنگ کو دماغ میں ری پلے کر رہے ہوں گے تو ایسے میں ایک ہی سوال بار بار چبھ رہا ہوگا کہ بیٹنگ میں اتنا کچھ کرکے بھی فتح ہاتھ کیوں نہ آسکی۔
شاید برمنگھم کے اس میچ سے وہ بہت کچھ سیکھ چکے ہوں کہ کسی بڑے سکور کے دفاع کے لیے بھی اتنی ہی مہارت چاہیے جتنی ایک سنچری بنانے کے لیے۔