لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے 13 جولائی وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے خلاف شہری کی درخواست پر مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سیل کو درخواست گزار کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روکتے ہوئے شکایت سیل کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھا دیے۔
سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں عدالت عالیہ نے استفسار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ شکایت سیل کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ کس قانون کے تحت کام کررہا ہے؟ نجی شکایات سے متعلق اس شکایت سیل کی قانونی حیثیت اور دائرہ کار کیا ہے؟
واضح رہے کہ عدالت نے جواب دہندگان کو 15 جولائی تک اپنا تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی تھی جبکہ معزز جج نے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی اس معاملے میں عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت دی تھی۔
تاہم جمعرات کو جواب دہندگان معزز عدالت میں اپنا جواب پیش نہ کر سکے اور ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے 14 ستمبر تک مہلت طلب کرلی، جس کے بعد عدالت عالیہ نے درخواست گزار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کے حکم امتناعی کو برقرار رکھتے ہوئے سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
معاملہ کیا تھا؟
لاہور کے ایک شہری نے وکیل محمد یوسف جاوید پھاپھڑا کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن جمع کروائی تھی، جس میں وزیر اعلیٰ شکایت سیل کی جانب سے لین دین کے تنازعے میں مداخلت کو چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے مطابق مخالف پارٹی نے 12 اپریل کو رقم کی واپسی کے لیے شکایت سیل میں درخواست جمع کروائی، جس کے بعد وزیر اعلیٰ شکایت سیل نے درخواست گزار کو رقم واپس کرنے کا حکم دیا۔
درخواست گزار نے اپنی پٹیشن میں لکھا ہے کہ ان کا اس لین دین کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ شکایت کنندہ کو رقم واپس کریں۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے شکایت سیل کے پاس کوئی ایسا قانونی حق نہیں جس کے تحت وہ کسی کے نجی مسئلے میں یا کسی کے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ کر سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نوٹس بھیج کر ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جو آئین کے ساتھ ساتھ کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار کی اس پٹیشن میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو فریق بنایا گیا تھا لیکن دوران سماعت اس اعتراض پر کہ عثمان بزدار کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 248 (1) کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، درخواست گزار کے وکیل نے وزیر اعلیٰ کی جگہ ان کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنانے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ترمیم شدہ پٹیشن 15 جولائی کو ہونے والی سماعت سے پہلے عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ درخواست گزار نے ترمیم شدہ پٹیشن عدالت میں جمع کروا دی جسے منظور کر لیا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق وزیراعلیٰ شکایت سیل کے پاس نجی معاملہ حل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہےاور یہ کارروائی کر کے آئین پاکستان کے آرٹیکل چار اور آرٹیکل 10 ا ے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل چار اور 10 اے کیا ہے؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل چار کی پہلی شق کہتی ہے: 'ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور کسی دوسرے شخص کو جو فی الوقت پاکستان میں ہو، یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔'
خصوصاً:
(الف) کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا املاک کے لیے مضر ہو سوائے جب قانون اس کی اجازت دے۔
(ب) کسی شخص کے لیے کوئی ایسا کام کرنے میں کو ئی ممانعت یا مزاحمت نہ ہوگی جو قانوناً ممنوع نہ ہو۔
(ج) کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لیے قانوناً ضروری نہ ہو۔
دوسری جانب آرٹیکل 10 اے منصفانہ سماعت کا حق دیتا ہے۔ یہ آرٹیکل اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا۔
اس کے مطابق کسی بھی شہری کے حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین یا اس کے خلاف کسی بھی الزام یا جرم میں وہ منصفانہ سماعت اور جائز عمل (Due Process) کا مستحق ہوگا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل کیسے کام کرتا ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے انچارج زبیر نیازی کو متعدد بار فون کیا لیکن ان کا فون بند ہونے کی وجہ سے ان سے بات نہیں ہوسکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ معاملہ اس وقت عدالت میں ہے اس لیے وہ اس پر ابھی بات نہیں کر سکتیں۔
تاہم وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل وزیر اعلیٰ کی جانب سے (behalf) کام کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ چونکہ انتظامی معاملات دیکھتے ہیں اور ان کے ایگزیکٹیو آرڈر پر ہی شکایت سیل بنایا گیا ہے جو کہ ایک قانونی باڈی ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ان کی شکایت سنیں ان کے لیے یہ سہولت مہیا کی گئی ہے۔ شکایت سیل سائل کی شکایت موصول کرتا ہے اور ان میں سے انہیں جو لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ تک پہنچنی چاہیے وہ پہنچا دی جاتی ہیں اور جو نہیں لگتا انہیں ڈسپوزآف کر دیا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق اگر کسی سرکاری افسر کے خلاف شکایت موصول ہوتی ہے تو شکایت سیل اسے متعلقہ محکمے کو مارک کر دیتا ہے، لیکن اگر کوئی زیادہ بڑی شکایت ہو تو اسے وزیر اعلیٰ انسپیکشن ٹیم جسے سی ایم آئی ٹی کہا جاتا ہے، بھیج دیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح اگر پولیس کی جانب سے کوئی غفلت کی شکایت موصول ہو تو اسے متعلقہ سربراہ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جیسے اگر لاہور سے کوئی شکایت موصول ہوئی ہے تو اسے سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز یا آئی جی پنجاب کو بھیج دیا جاتا ہے۔