پانی کے ذخائر سوکھے ہوئے، خشک مرطوب زمین، مٹی کے طوفان، شدید گرمی، آگ لگنے کے واقعات، فضا، پانی اور مٹی میں آلودگی۔ یہ صورت حال ہے ایران کے جنوب مغرب صوبے خوزستان کی۔
چھ جولائی کو خوزستان کے ایک گاؤں سے ایک عرب قبائلی شیخ دیگر کسانوں اور لوگوں کے ہمراہ صوبے کے دارالحکومت اھواز پہنچا اور صوبے میں پانی اور بجلی کی بگڑتی صورت حال کی شکایت کی۔ اس شیخ نے کہا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے علاقے کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے چاہے سیلاب آئے یا خشک سالی۔
اس شیخ کی استدعا سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اس کے ساتھ لوگوں نے بھی اپنی اپنی صورت حال کو شیئر کرنا شروع کیا۔ انہوں نے خشک فصلوں، پیاسے جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا شروع کیں اور انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر مظاہروں کی کال دی۔ انہوں نے اپنی کال پر زور دیا کہ یہ مظاہرے صرف پانی کی قلت کے خلاف ہیں اور پرامن مظاہرے ہوں گے۔
اس طرح خوزستان میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں اب جانی نقصان بھی ہوا ہے۔
ایران کے کُل پانی کے ذخائر کا 90 فیصد زراعت کی صنعت کی طرف جاتا ہے۔ پانی کے ذخائر میں کمی کے باعث اس صنعت سے منسلک لوگوں نے زیر زمین پانی استعمال کرنا شروع کیا۔ علاقائی درجہ حرارت میں اضافے نے صورت حال کو مزید خراب کیا۔
پانی کی قلت خاص طور پر جنوب مغربی ایران میں بہت سنگین ہے۔ یہ علاقہ زراعتی علاقہ ہے اور اسی علاقے میں تیل کے 80 فیصد اور گیس کے 60 فیصد ذخائر موجود ہیں۔ لیکن یہ علاقہ مفلسی میں گھرا ہوا ہے اور یہاں کے عرب اقلیتی عوام ایرانی حکومت پر الزام عائد کرتی ہے کہ حکام ان کو نظر انداز کرتے ہیں اور جائز مطالبات کو پورا نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہ وہی علاقہ ہے جہاں ماضی میں بھی مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانی کی قلت کے خلاف خوزستان میں 2017 اور 2018 میں بھی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ 2019 میں تیل کی قیمتوں میں اضافے پر بھی مظاہرے ہوئے جن کو حکومت نے طاقت کے استعمال سے ختم کیا۔
جولائی میں شروع ہونے والے مظاہرے رفتہ رفتہ خوزستان کے مختلف شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ ایران کے اندر اور باہر موجود مظاہرین اور ان کے حامی سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ خوزستان کی دیواروں پر لکھا ہے ’جب آپ کنویں سے پانی نکالتے ہیں اور اس سے چائے بناتے ہیں، تو کیا اس میں خون کاذائقہ نہیں ہوتا؟‘
لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پیاسے ہیں اور ’ہمیں صرف پانی چاہیے، صرف پانی، ہمارے پاس پانی نہیں ہے۔‘ ایک اور ٹویٹ میں لکھا ہے کہ لوگوں نے پانی کا مطالبہ کیا تو اس کا جواب گولیوں اور تشدد سے دیا گیا۔
ایران کے صدر روحانی نے کہا ہے کہ مظاہرہ کرنا لوگوں کا حق ہے جو پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ’خوزستان کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ آواز بلند کریں، اظہار کریں، مظاہرے کریں اور قواعد و ضوابط کے مطابق سڑکوں پر نکلیں۔‘
لیکن ایسا نہیں ہے کہ ایک دن خوزستان میں پانی ختم ہو گیا اور اگلے روز خوزستان کے لوگوں نے مظاہروں کی ٹھان لی۔ مئی میں ایران کے وزیر برائے توانائی نے متنبہ کیا تھا کہ ملک گذشتہ پانچ دہائیوں میں سب سے خشک موسم گرما کا سامنا کر رہا ہے اور درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک میں بجلی اور پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔
دوسری جانب ایران کے محکمہ موسمیات نے بھی تنبیہ کی تھی کہ ملک کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں 50 سے 85 فیصد بارشیں کم ہوں گی اور درجہ حرارت میں گذشتہ سالوں کے مقابلے میں دو سے تین ڈگری کا اضافہ ہو گا۔
تاہم ماہرِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ ملک میں نظام خراب ہے اور اس کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت درست نہیں کیا جا رہا ہے۔ حکومت ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب جاتی ہے اور صرف سطحئی ایکشن لیتی ہے اور امید کرتی ہے کہ یہ بحران دوبارہ پیدا نہیں ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوزستان میں ٹرکوں کے ذریعے پانی پہنچانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور اگر حکومت ڈیموں کو کھول دیتی ہے تو خوزستان کو تو پانی مل جائے گا لیکن دیگر صوبوں میں پانی کا بحران سر اٹھا لے گا۔
امریکہ کی ییل ہونیورسٹی میں آبی و ماحول کے سائنسدان کاوہ مدنی کا کہنا ہے کہ اس وقت ایران میں حکومت کی نظریں آسمان پر لگی ہوئی ہیں کہ بارش ہو اور یہ بحران ختم ہو۔ ’ایران میں جو کچھ ہم ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ دہائیوں کی ناقص آبی مینیجمنٹ، ناقص ماحولیاتی گورننس اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ یہ ایران پر لگی پابندیوں اور ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں ہے۔ خوزستان کو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح آبی دیوالیہ کا سامنا ہے۔‘
ایران کا آبی نظام مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن اس کی موجودہ حالت کی ذمہ دار حکومت خود ہے۔ حکومتوں نے روزگار کے موقعے فراہم کرنے کے لیے قدرتی وسائل کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کیا جس کے باعث ان میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی۔ ایک پراجیکٹ میں خوزستان کے آبی وسائل کو پائپ لائن کے ذریعے وسطی صحرائی علاقوں کی جانب موڑ دیا۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کے بعد اصفہان میں مظاہرے ہوئے کیونکہ ان کی زراعت کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ دوسری جانب ماہر ماحولیات نے مغربی ایران کے شہر ارومیہ میں واقع مشہور نمکین جھیل کے خشک ہو جانے پر آواز اٹھائی۔
تصادم کے شروع ہونے میں آبی وسائل ہمیشہ سب سے بڑی وجہ نہیں ہوتے لیکن سماجی عدم استحکام میں ایک اہم جزو ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ایران اور مشرق وسطیٰ میں آبی وسائل، ماحولیات اور انسانی استحکام کے درمیان تعلق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
وقت ہے کہ نہ صرف ایران بلکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک آبی وسائل اور ماحولیات پر سنجیدگی سے سوچیں اور منصوبہ بندی کریں۔