عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو داعش سے لڑنے کے لیے امریکی فوج کی ضرورت نہیں ہے تاہم امریکی فوج کی میدانِ جنگ دوبارہ تعیناتی کے باضابطہ وقت کا انحصار رواں ہفتے امریکی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر ہو گا۔
مجوزہ دورہ امریکہ سے پہلے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو خصوصی انٹرویو میں عراقی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عراق، امریکہ سے تربیت اور فوجی خفیہ معلومات اکٹھی کرنے میں معاونت کا کہے گا۔ واضح رہے کہ عراق کے وزیراعظم دورہ واشنگٹن میں پیر کو امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ سٹریٹیجک مذاکرات کا چوتھا دور مکمل کریں گے۔
عراق سے امریکی فوج کی واپسی کی ڈیڈلائن کے بارے میں اعلان نہ کرنے والے عراقی وزیراعظم کا اتنا ضرور کہنا تھا کہ’عراق کی سرزمین پر لڑنے والی کسی غیر ملکی فوج کی ضرورت نہیں ہے، عراقی سیکیورٹی فورسز اور فوج، امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے بغیر ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
الکاظمی نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے شیڈول کی بنیاد عراقی فورسز کی ضروریات پر ہوگی جنہوں نے گذشتہ سال آزادانہ طور پر داعش مخالف مشن مکمل کر کے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم کے بقول: ’داعش کے خلاف جنگ اور ہماری فورسز کی تیاری کے لیے خصوصی ٹائم ٹیبل کی ضرورت ہے اور اس کا انحصار ان مذاکرات پر ہے جو ہم واشنگٹن میں کریں گے۔‘
امریکہ اور عراق نے اپریل میں اتفاق کیا تھا کہ امریکہ تربیت اور مشورے دینے کی طرف مائل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا جنگی کردار ختم ہو جائے گا۔
تاہم دونوں ملکوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ یہ تبدیلی کب آئے گی۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر اور عراقی وزیراعظم کے حوالے سے توقع ہے کہ وہ اس حوالے سے کسی وقت کا تعین کریں گے جو ممکنہ طور پر اس سال کا آخر ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال سے ڈھائی ہزار امریکی فوجی عراق میں موجود ہیں۔ اس سے پہلے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج کی تعداد میں کمی کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل سابق امریکی صدر براک اوباما نے سال 2014 میں امریکی فوج واپس عراق بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ عراقی فورسز کو تربیت اور مشورے دینے کے امریکی مشن کی تازہ ترین بنیاد اوباما کا یہی فیصلہ ہے۔
اس وقت داعش نے مغربی اور شمالی عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا اور عراقی سکیورٹی فورسز کی ناکامی سے دارالحکومت بغداد کو بظاہر خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔
اسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اوباما نے امریکی فوج کو دوبارہ عراق بھیجا تھا۔ انہوں نے عراق پر امریکی حملے کے آٹھ سال بعد 2011 میں تمام امریکی فوج کو واپس بلا لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الکاظمی کے بقول: ’ہم عراق میں امریکی موجودگی سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری فورسز کو تربیت دیں اوران میں استعداد اور صلاحیتیں پیدا کریں اور سلامتی کے معاملے میں تعاون کریں۔‘
عراقی وزیراعظم ایسے وقت واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں جب ان کی انتظامیہ کو ایک کے بعد ایک دھچکہ لگا ہے اور ان پر عوام کے اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔
جنگجو دھڑوں کی جانب سے جاری میزائل حملوں سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ریاست کی ان کو روکنے کی صلاحیت محدود ہے۔ ملک میں کرونا (کورونا) وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی صورت حال میں ہسپتالوں میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے ہیں جن میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔
قبل از وقت عام انتخابات، جن کا الکاظمی نے عہدہ سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا، ان کے انعقاد کے لیے تین ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔ تاہم واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کا بڑا ایجنڈا عراق میں امریکی قیادت میں موجود اتحادی افواج کا مستقبل ہوگا۔
عراق نے تباہ کن اور خونی جنگ کے بعد 2017 میں داعش کے خلاف فتح کا اعلان کیا تھا۔ گذشتہ سال عراقی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے میں ایران کے طاقتور جنرل قاسلم سلیمانی اور ملیشیا کمانڈر ابومہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد سے امریکی فوج کی عراق میں مسلسل موجودگی ملکی سیاست دانوں کے درمیان اختلافی مسئلہ بن چکا ہے۔