پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کو، جس میں اس کے عدالتی نظام کے خلاف تبصرہ کیا گیا تھا، مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں عدالتیں آئین کے مطابق آزادی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے منگل کو صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں امریکی رپورٹ میں پاکستان کے عدالتی نظام پر کیے گئے نامناسب اور غیر ضروری تبصرے پر سخت اعتراض ہے۔‘
واضح رہے کہ امریکی دفتر خارجہ نے رواں سال سرمایہ کاری کے ماحول کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے عدالتی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی رپورٹ کے مطابق حکومت اور دوسرے فریقین کا پاکستان کی ’عدلیہ پر اثرورسوخ ہے، ماتحت عدالتوں پر انتظامیہ کا اثرورسوخ ہے اور دیکھا گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں اہلیت اور غیرجانبداری کا فقدان ہے۔‘
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس وقت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی بھرمار ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر اہلیت، غیرجانب داری اور قابل اعتماد ہونے کے معاملے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عدلیہ آزاد ہے اور عدالتیں آئین اور ملک کے قانون کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
’ہم ملکی عدالتی نظام پر امریکی الزامات کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔ یہ الزام درحقیقت غلط اور گمراہ کن ہیں۔‘
امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اصولی طور پر ’پاکستان کا عدالتی نظام انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے آزاد ہے لیکن حقیقت اس کے خاصے برعکس ہے اور فوج کا عدلیہ پر گہرا اثرو رسوخ ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’توہین عدالت کی کارروائی کا خوف کاروباری افراد اور عام طور پر عوام کو عدالتوں کی کمزوری پر بات کرنے سے روکتا ہے۔‘
اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی عدلیہ پر جبر یا دباؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ’امریکی رپورٹ میں کیے گئے بے بنیاد دعووں کی پاکستانی عدالتوں کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں ہر سطح پر تردید ہوتی ہے۔ یہ فیصلے عدلیہ کی خود مختاری کے اعلیٰ ترین معیار پر پورے اترتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ سمیت عالمی برداری کے ساتھ معیشت کے شعبوں میں باہمی مفاد پر مبنی تعاون حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ہم پاکستان کی معاشی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ عملی شکل دینے کے لیے اقدامات کرتے رہیں گے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان نے کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے درپیش سخت مشکلات کے باوجود ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زاہد حفیظ چوہدری کے مطابق امریکی رپورٹ میں معاملات کو باضابطہ بنانے کے نظام کی خامیوں پر قیاس آرائی سے کام لیا گیا ہے اور ناقابل تصدیق ذرائع کی بنیاد پر نتیجہ نکالا گیا ہے۔
امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 1872 کا کنٹریکٹ ایکٹ وہ بڑا قانون ہے جو پاکستان کے ساتھ معاہدوں کو باضابطہ بناتا ہے۔ بعض حالات میں عدالتی فیصلوں میں برطانوی دور کے قانونی فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔
’اگرچہ پاکستان کے قانون اور معاشی پالیسی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف کسی امتیاز سے کام نہیں لیا جاتا لیکن اہلیت سے عاری اور کمزور عدلیہ کی وجہ سے معاہدوں پر عملدر آمد مسائل کا شکار رہتا ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق رشوت جرم ہے جس کی سزا موجود ہے لیکن اس کے باوجود ’یہ بات عام مانی جاتی ہے کہ حکومت میں ہر سطح پر رشوت چلتی ہے۔‘
’اعلیٰ عدالتوں کو بڑے پیمانے پر زیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے لیکن ماتحت عدلیہ کو اکثر بدعنوان اور نااہل سمجھا جاتا ہے جن پر دولت مند، مذہبی اور سیاسی شخصیات اور اسٹیبلشمنٹ دباؤ ڈالتے ہیں۔ عدالتوں میں سیاسی بنیاد پر تقرریوں کی وجہ سے حکومت کا عدالتی نظام اثرو رسوخ بڑھ جاتا ہے۔‘