ماضی کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو لاہور کی قدیم روایات میں ہر دروازے کے باہر ایک تکیہ موجود ہوتا تھا، چونکہ اس زمانے میں ہوٹل یا سرائے کا تصور نہیں تھا لہٰذا دوسرے شہروں سے آنے والے تاجروں یا مسافروں کا قیام ان تکیوں میں ہوتا تھا۔
لاہور میں کل 30 تکیے تھے اور ہر تکیہ میں مسجد، کنواں، غسل خانے، کمرے اور اکھاڑا بنایا جاتا تھا۔ اس میں ایک یا اس سے زیادہ خدمت گار ہوتے تھے جن کی ذمہ داری مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا تھی۔
معروف کلاسیکل گائیک استاد بدرالزمان کا کہنا تھا کہ تکیوں میں دوسرے شہروں سے آنے والے مسافروں کی آرام گاہ کے ساتھ ساتھ پنچایتیں بھی لگائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ تکیے کاروبار، اخلاقی رسم و رواج اور سماجی روابط کا ذریعہ تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ قصور چونکہ لاہور کا قریبی شہر تھا اس لیے وہاں سے تاجروں کی آمدرو رفت زیادہ تھی۔ قصور سے کاروباری افراد اکثر گدھا گاڑی یا دوسری سواریوں پر سامان لے کر آتے، جاتے تھے۔
تاہم استاد بدرالزمان کے مطابق معاشرتی تہذیب ان کے آڑے آ جاتی اور وہ ان تکیوں میں گھٹن محسوس کرتے تھے۔
لہٰذا لاہور اور قصور سے تعلق رکھنے والے موسیقی سے وابستہ افراد نے اپنا الگ تکیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے موچی دروازے کے سامنے موجودہ چیمبر لین روڈ پر گھاٹی اتر کر دائیں ہاتھ چند قدموں کے فاصلے پر زمین خریدی اور تکیہ بنا لیا جو بعد ازاں یہ ’تکیہ مراثیاں‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
ابتدا میں وہاں لاہور اور قصور دونوں شہروں سے تعلق رکھنے والے فنکار اپنے سر بکھیر کر لطف اندوز ہوتے تھے تاہم کچھ عرصے بعد وہاں ساز و آواز کی آبیاری کا باقاعدہ عمل شروع ہو گیا۔
معروف کلاسیکل گائیک استاد قمرالزمان کہتے ہیں کہ استادوں نے وہاں علم موسیقی کے چراغ جلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور آہستہ آہستہ تکیہ مراثیاں کا چرچہ دوسرے شہروں میں بھی ہونے لگا۔
موسیقی سے وابستہ فنکار خصوصی طور پر وہاں جانے لگے۔ فنکار اس تکیہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ریاض کرتے تھے۔
اس تکیہ میں گانے بجانے کے علاوہ اہل علاقہ کو اکھاڑے میں کُشتی کی تربیت بھی دی جاتی تھی اور وہاں دنگل بھی ہوا کرتے تھے۔
پھر ایک وقت آیا کہ تکیہ مراثیاں برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کا سب سے بڑا ’پرائیوٹ انسٹیٹیوٹ‘ بن گیا۔ وہاں ملک کے کونے کونے سے موسیقی کے بڑے گھرانوں کے استاد اپنے فن کا جادو جگانے لگے۔
تکیہ مراثیاں میں سننے والے بھی وہی لوگ ہوتے جنہیں سر، لے کی خوب پہچان ہوتی تھی۔ عام فنکار وہاں گانے کی جرات نہ کرتے تھے۔
استاد قادر علی شگن بتاتے ہیں کہ تکیہ مراثیاں میں برصغیر پاک و ہند کے جن معروف سنگیت کاروں نے اپنے سر بکھیرے ان میں استاد بڑے غلام علی خان، پٹیالہ گھرانے کے استاد علی بخش خان جرنیل اور استاد فتح علی خان کرنیل، استاد عاشق علی خان، استاد فتح علی خان، دھرپد گائیک استاد اللہ بندے خان ذاکرالدین سمیت کئی دیگر شہرت یافتہ فنکار شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرفان علی خان کا کہنا تھا کہ پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ، تان کپتان کے بیٹے استاد عاشق علی خان نے اپنی زندگی کی آخری پرفارمنس تکیہ مراثیاں میں پیش کی اور ان کا مزار بھی اسی تکیے کے احاطے میں موجو ہے۔
جیسے جیسے بڑے فنکار اس جہاں سے رخصت ہوتے گئے تکیے کی راعنائیوں میں کمی ہوتی چلی گئی اور 1980 کی دہائی میں یہاں فن کی روشنی مدہم پڑ گئی۔
دوسری طرف تکیہ میں ان لوگوں کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا جن کا موسیقی سے دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ موسیقی کے اس ادارے کے زوال پذیر ہونے کے بعد منتظمین کے لیے اس کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گئے جس کے باعث انہیں تکیے کی زمین میں کچھ دکانیں کرائے پر دینا پڑیں۔
جس کے بعد اب انتہائی مختصر سا رقبہ تکیے کے حصے میں آیا ہے۔
زاہد علی خان نے بتایا کہ تکیہ مراثیاں کے آخری منتظم استاد ناظم علی خان سارنگی نواز تھے۔ استاد ناظم علی خان کے انتقال کے بعد تکیہ تقریباً نام کی حد تک باقی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کی فنی، ثقافتی، علمی، روایتی اور تاریخی حیثیت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اب یہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصے میں سنی مسلک کی مسجد، دوسرے میں شیعہ مسلک کی امام بارگاہ اور تیسرے حصے میں استاد عاشق علی خان کا مزار واقع ہے۔
تکیہ مراثیاں میں تربیت حاصل کرنے والے آخری مشہور گلوکاروں میں استاد بدرالزمان، استاد قمرالزمان ہیں جنہوں نے وہاں استاد چھوٹےغلام علی خان قصور والے سے فن موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔