امریکی بحریہ کے دھماکہ خیز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرہ عرب میں عمان کے ساحل کے قریب حملے کا شکار ہونے والے آئل ٹینکر کو ’ڈرون حملے‘ سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
’مرسر سٹریٹ‘ نامی آئل ٹینکر کو جمعرات کی رات نشانہ بنایا گیا تھا جو ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے پائے جانے والی کشیدگی کے تناظر میں خطے میں کئی سالوں سے کمرشل مال بردار بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں میں سب سے مہلک ثابت ہوا ہے۔
اگرچہ کسی ملک یا گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم اسرائیلی حکام نے تہران پر اس حملے کا الزام عائد کیا ہے اور اسرائیلی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ پر ایران کے خلاف ایکشن لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کا بھی ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔
ایران نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم یہ حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سخت گیر ساتھی ابراہیم رئیسی نئے صدر کا چارج سنبھالنے والے ہیں جس کے بعد تہران کا مغرب کے ساتھ رویہ مزید سخت ہونے کی توقع ہے۔امریکی بحریہ کے مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں موجود پانچویں بحری بیڑے (5th Fleet) نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ ایٹمی طاقت سے چلنے والے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس رونالڈ ریگن اور گائیڈڈ میزائل ڈیسٹرائیر یو ایس ایس مٹشر ’مرسر سٹریٹ‘ کو ایک محفوظ بندرگاہ کی طرف لے جا رہے تھے۔
ففتھ فلیٹ نے کہا: ’امریکی بحریہ کے دھماکہ خیز مواد کے ماہرین حملے کا نشانہ بننے والے جہاز پر سوار ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عملے کو کوئی اضافی خطرہ نہ ہو اور وہ حملے کی تحقیقات میں مدد کے لیے تیار ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’ابتدائی تحقیقات واضح طور پر (ڈرون) طرز کے حملے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔‘
تاہم بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ڈرون نے کس طرح جہاز کو نقصان پہنچایا حالانکہ اس سے پہلے دھماکہ خیز مواد کے ماہرین کی جانب سے مرسر سٹریٹ پر حملے کے واضح بصری شواہد ملنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ نے شواہد کے حوالے سے سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق آئل ٹینکر مرسر سٹریٹ کو عمانی جزیرے مسیرہ کے بالکل شمال مشرق میں جمعرات کی رات نشانہ بنایا گیا۔ یہ مقام عمان کے دارالحکومت مسقط سے تین سو کلومیٹر (185 میل) جنوب مشرق میں ہے۔
اسرائیلی ارب پتی ایال اوفر کے زوڈیک گروپ کی لندن میں واقع کمپنی ’زوڈیک میری ٹائم‘ اس بحری جہاز کو آپریٹ کرتی ہے۔
اس سے قبل زوڈیک میری ٹائم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’لائبیریا کے پرچم والا یہ آئل ٹینکر مرسر سٹریٹ ہے اور یہ جاپان کی ملکیت تھا۔ برطانوی وزارت دفاع نے اس سے قبل جہاز کے مالکان کو غلط شناخت کیا تھا۔
زوڈیک میری ٹائم نے تفصیل میں جائے بغیر اسے ’قزاقوں‘ کا حملہ قرار دیا تھا۔
بعد میں کہا گیا کہ اس حملے میں عملے کے دو افراد ہلاک ہوگئے، جن میں سے ایک کا تعلق برطانیہ اور دوسرے کا رومانیہ سے ہے۔ مزید کہا گیا کہ کمپنی ’کسی بھی دوسرے اہلکار کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ نہیں ہے۔‘
زوڈیک میری ٹائم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’واقعے کے وقت یہ جہاز شمالی بحر ہند میں تھا اور دارالسلام سے فجیرہ جا رہا تھا، جس میں کوئی سامان نہیں تھا۔‘
میری ٹائم ٹریفک ڈاٹ کام کے سیٹلائٹ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاز اس مقام سے قریب ہی تھا، جس کے حوالے سے برطانوی حکام نے بتایا تھا کہ یہاں حملہ ہوا ہے، تاہم جہاز سے آخری سگنل جمعے کی صبح موصول ہوا۔
دوسری جانب یونائیٹڈ کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (یو کے ایم ٹی او) کی جانب سے ایک مختصر ابتدائی بیان میں کہا گیا کہ جمعرات کی رات کو پیش آنے والے اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ اس تاثر کو بھی رد کردیا گیا کہ یہ ’قزاقوں‘ کا حملہ تھا۔
ایرانی میڈیا نے حملے سے متعلق غیر ملکی رپورٹس کا حوالہ دیا ہے، لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے کویت میں گفتگو کرتے ہوئے ایران کو متنبہ کیا تھا کہ جوہری معاہدے کے بارے میں ویانا میں بات چیت ’غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتی۔‘
اس کے علاوہ اسرائیل اور ایران کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں اور عالمی طاقتوں اور تہران کے مابین جوہری معاہدے کے معاملے پر مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔
اسرائیل سے وابستہ دیگر بحری جہازوں کو بھی حالیہ مہینوں میں نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اسرائیلی حکام نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا۔ دوسری جانب ایران کی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں اسرائیل پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔