ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا (کورونا) وبا کے دوران لائف سٹائل میں تبدیلی اور سکرین پر زیادہ وقت گزارنے سے ممکنہ طور پر بچوں کی بینائی (قریب کی نظر) متاثر ہوئی ہے۔
ہانگ کانگ میں چھ سے آٹھ سال کی عمر کے بچوں کا تجزیہ کرتے ہوئے محققین نے وبا کے دوران ان میں مایوپیا myopia (نظر کمزور ہونے کی بیماری) کے کیسز میں ممکنہ اضافہ دیکھا۔
انہوں نے ان بچوں کے سکرین ٹائم اضافہ اور باہر کھیلنے کودنے کے وقت میں نمایاں کمی کا بھی نوٹس لیا۔
’برٹش جرنل آف آفتھمولوجی‘ میں شائع ہونے والے اس تجزیے کے لیے بچوں کو دو الگ الگ گروپس میں شامل کیا گیا تھا۔
ایک گروپ میں بچوں کو کرونا کے آغاز پر شامل کیا گیا تھا جب کہ دوسرا گروپ کووڈ 19 کی آمد سے پہلے ہی ایک علیحدہ مطالعہ کا حصہ تھا۔
وبا کے دوران 1،793 بچوں کی بینائی اور رویے کا مطالعہ کرتے ہوئے محققین نے پایا کہ فالو اپ کی مدت کے بعد صحت کے بحران کے دوران 19 فیصد بچے مایوپیا کا شکار تھے۔
دوسری جانب اس کا موازنہ جب وبا سے پہلے کے بچوں کے گروپ سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گروپ میں یہ شرح 13 فیصد تھی۔
محققین کے مطابق: ’ہماری رپورٹ میں جو تشویشناک انکشاف ہوا وہ یہ ہے کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران بچوں کے طرز زندگی میں نمایاں تبدیلیاں آئیں، 68 فیصد بچوں کا آؤٹ ڈور ٹائم کم ہوا جب کہ ان کے سکرین ٹائم میں 2.8 گنا اضافہ ہوا۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’شواہد بتاتے ہیں کہ جب بچے سکول نہیں جاتے تو وہ جسمانی طور پر کم متحرک ہوتے ہیں اور ان کا سکرین ٹائم زیادہ طویل ہو ہوتا ہے اور ماحولیاتی خطرے کے تمام عوامل کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ یہ ثابت ہوا ہے کہ آؤٹ ڈور وقت میں مسلسل اضافہ مایوپیا جیسے مرض سے حفاظت کا باعث بنتا ہے۔‘
’دا چائینز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ‘ کے مصنفین نے اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’ہم نے کووڈ 19 وبا کے دوران ہانگ کانگ میں سکول کے بچوں میں مایوپیا کے کیسز میں ممکنہ اضافہ دیکھا ہے۔ چھ سے آٹھ سال کے سکول کے بچوں میں آؤٹ ڈور ٹائم میں نمایاں کمی اور نیئر ورک (سکرین) ٹائم میں اضافہ دیکھا گیا۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’ہمارے نتائج آنکھوں کے ڈاکٹرز، پالیسی سازوں، اساتذہ اور والدین کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں صحت عامہ کے ممکنہ بحران کے دوران بچپن کے مایوپیا کو روکنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔‘
تاہم آکسفورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے ریٹائرڈ پروفیسر اولیور بریڈک نے اس تحقیق کے نتائج پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ شاید محققین ان دو گروپس کے درمیان ’براہ راست موازنہ‘ نہیں کر سکے۔
پروفیسر بریڈک نے کہا: ’کووڈ وبا نے یہ جاننے کا ایک دلچسپ موقع فراہم کیا کہ طرز زندگی میں مسلط کردہ تبدیلیوں نے کم عمر بچوں میں بینائی کو کس طرح متاثر کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ بدقسمتی ہے تاہم یہ مطالعہ کرونا وبا سے پہلے اور بعد کے گروپوں میں مایوپیا کی بیماری پیدا ہونے کے درمیان براہ راست موازنہ نہیں کر سکتا کیوں کہ دونوں گروپوں کا مختلف اوقات میں فالو اپ لیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’تاہم 2013 میں سڈنی میں ہونے والی ایک تحقیق میں اس حوالے سے دیگر شواہد بھی ملے تھے جن کے مطابق دن کی روشنی میں بیرونی سرگرمی میں حصہ لینا بچوں میں نظر کی کمزوری سے حفاظت کے لیے موثر ہے جو کہ اس مطالعے کے نتائج کے مطابق ہے۔‘
پروفیسر بریڈک کا کہنا کہ ’یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ یہ مطالعہ مشرقی ایشیائی خطے کی ایک شہری آبادی میں کیا گیا ہے جہاں عام طور پر یورپی نسل کے مقابلے میں مایوپیا کی سطح ویسے ہی زیادہ ہوتی ہے۔‘
2018 میں کنگز کالج لندن میں آنکھوں کے ڈاکٹرز کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے میں بچوں کے سمارٹ فون اور دیگر ڈیوائسز کے استعمال کو بھی گرمیوں کے مہینوں میں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بینائی کی بڑھتی ہوئی وبا سے جوڑا گیا تھا۔
دریں اثنا یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محققین نے 2016 میں پیش گوئی کی تھی کہ اگلی تین دہائیوں میں مایوپیا کے کیسز میں سات گنا اضافہ ہو جائے گا جس کے مطابق 2050
تک تقریبا 4.8 ارب افراد کی بینائی کم ہونے کی توقع ہے۔
© The Independent