بدھ کے روز غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی حل اب مشکل لگ رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ طالبان مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا ’تین چار مہینے پہلے میں نے بذات خود کوشش کی طالبان کو منانے کی۔‘
’جب طالبان کی قیادت نے یہاں دورہ کیا تھا تو ہم نے انہیں سیاسی حل کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کو انتشار میں جانے سے صرف سیاسی حل روک سکتی ہے مگر بدقسمتی سے جب طالبان یہاں موجود تھے تو انہوں نے اشرف غنی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
’طالبان کی شرط ہے کہ جب تک اشرف غنی موجود ہیں تب تک وہ افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے۔‘
’وہ (افغان حکومت) اب کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح امریکیوں کو واپس افغانستان لایا جائے۔ وہ اس شکست کا ذمہ دار امریکہ اور پاکستان کو ٹھہرا رہے ہیں۔‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان حکومت امریکہ کو کسی طرح قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مداخلت کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے 2019 صدارتی انتخابات سے قبل عبوری حکومت کی تجویز دی تھی لیکن اس بیان پر افغان حکومت نے بڑی تنقید کی تھی لیکن جب اشرف غنی منتخب ہوئے اور طالبان کو شامل نہیں کیا گیا تو پھر مسائل شروع ہوئے اور تبھی سے میں انہیں تسلیم کرنے اور مذاکرات کرنے پر زور دیتا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ’اب افغان حکومت پاکستان پر بہت زیادہ تنقید کر رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ جادوئی طاقت ہے، جس کے ذریعے ہم طالبان سے جو کروانا چاہیں کروا لیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو حاصل سہولت ختم ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکا نے انخلا کی تاریخ دی ہے، تب سے طالبان کو سمجھانا مشکل ہوگیا ہے اور اب افغان حکومت وہاں کی صورت حال پر الزام پاکستان کو دے رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس سپر نیچرل طاقت ہے اور ہم سپر پاور پلس ہیں اور ایسی طاقت ہے کہ 60 ہزار سے 70 ہزار طالبان کو افغان حکومت کے 3 لاکھ فوجیوں سے، جو ایئرکرافٹ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے، اس کے باوجو ہم طالبان کو کامیابی دلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ امریکہ دوبارہ مداخلت کرے لیکن وہ یہاں بیس سال تک رہے ہیں تو وہ اب ایسا کیا کریں گے جو وہ گزشتہ بیس سال میں نہ کرسکے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ ’ہماری سرزمین افغانستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی تاکہ ہم افغانستان کی خانہ جنگی میں دوبارہ الجھ نہ جائیں اور اپنی حدود میں کوئی فوجی بیس دینا نہیں چاہتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک میری معلومات ہیں، امریکی 31 اگست کے بعد ہر قسم کی کارروائیاں یہاں تک افغانستان میں حملے بھی بند کردیں گے۔‘