خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) اپنے آغاز سے ہی تنقید کی زد میں رہی ہے، لیکن تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سروس بطور خاص اس شہر کی خواتین کے لیے اچھی خاصی مفید ثابت ہوئی ہے۔
بی آر ٹی سروس کو ایک سال مکمل ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے پلیٹ فارمز پر موجود پشاور کی خواتین کی رائے جاننے کے لیے ان سے بات کی تو حیرت انگیز طور پر کسی بھی خاتون نے بی آر ٹی کے خلاف بات نہیں کی۔
ان خواتین نے بی آر ٹی کو پشاور کے قدامت پسند ماحول میں خواتین کے لیے بہت بڑا ریلیف قرار دیا۔
خواتین مسافروں کی اکثریت نے جن نکات پر زیادہ زور دیا ان میں اچھا ماحول، کم کرایہ، آرادم دہ سفر اور بحفاظت کم وقت میں اپنی منزل مقصود تک پہنچنا شامل ہے۔
بی آر ٹی کے ذریعے سفر کرنے والی ایک خاتون، جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو خواتین نو سے پانچ بجے تک ملازمت کرتی ہیں، انہیں اس سروس سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’نو سے پانچ بجے تک ملازمت کرنے والی خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی مسائل کا سامنا تھا۔ میں پچھلے کچھ عرصے سے اس بس کا استعمال کر رہی ہوں، مجھے تو بہت آسانی ہوئی ہے۔ ‘
بی آرٹی بس میں سفر کرنے کے لیے یوں تو پشاور کی مرکزی شاہراہ پر جگہ جگہ سٹیشن بنائے گئے ہیں تاہم طلبہ، مریضوں اور تیمارداروں کی سہولت کے لیے سرکاری جامعات اور ہسپتالوں کے داخلی دروازوں کے عین سامنے بھی یہ سٹیشنز موجود ہیں۔ بسوں کے اوقات کار اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد صبح اور چھٹی کے وقت ان بسوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسی ہی ایک طالبہ عظمیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ روزانہ یونیورسٹی بی آر ٹی سے جاتی ہیں اور اب وہ بغیر کسی دقت کے وقت پر یونیورسٹی پہنچ جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’یہ بہت بڑی سہولت ہے۔ اب ہمیں رکشے وغیرہ میں دھکے نہیں کھانے پڑتے بلکہ آرام سے یونیورسٹی پہنچ جاتے ہیں۔‘
روزینہ آفریدی ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس سروس کا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہ ہوا ہے کہ وہ وقت پر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتی ہیں۔
’ایک سال ہوگیا ہے، ہم بہت آرام سے اور وقت پر پہنچ رہے ہیں۔ عام گاڑیوں میں بہت مسئلے مسائل ہوتے تھے۔ اب شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ‘
نورین نامی ایک ہاؤس وائف نے بتایا کہ یہ سروس خواتین کے لیے بہت اچھی ہے کیونکہ اس سے قبل دیگر عوامی ویگنوں اور بسوں میں خواتین کے لیے الگ نشستیں مخصوص نہیں تھیں۔
’اب اگر خواتین کے پاس بچے بھی ہوں تو وہ باآسانی سفر کرسکتی ہیں۔ ماحول بھی اچھا ہے، اس لیے وہ مردوں کے بغیر بھی سفر کرسکتی ہیں۔‘
اگرچہ ابھی تک بی آرٹی کے تمام سٹیشنوں میں لفٹ اور ایسکیلیٹرز کی سہولت موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بڑی عمر کے مرد وخواتین اور خصوصی افراد بھی بی آرٹی بسوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔
ایسی ہی ایک ضعیف العمر خاتون نے بتایا کہ ’یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کا کرایہ بھی کم ہے۔ ‘