محترمہ فاطمہ جناح اور قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے 1947 میں بنائی گئی ’گرل گائیڈز ایسوسی ایشن‘ آج بھی قائم و دائم ہے اور پاکستان میں نوجوان خواتین کی تعلیم وتربیت اور شعور بیدار کرنے کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔
تاہم ایسوسی ایشن کے تمام صوبائی چیپٹرز یکساں فعال نہیں اور نہ ہی ماضی کی طرح سکولوں اور کالجوں میں گرل گائیڈز کا کوئی وجود ہے۔ اس حقیقت کے باوجود خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں آج بھی طالبات سے سالانہ فیس کٹوتی میں 12 روپے گرل گائیڈز کے نام پر لیے جاتے ہیں۔
پاکستان گرل گائیڈز ایسوسی ایشن (پی جی جی اے) کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے جب کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اس کے چیپٹرز یعنی ذیلی دفاتر واقع ہیں۔
پاکستان گرل گائیڈز ایسوسی ایشن نے محترمہ فاطمہ جناح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس سال مری گھوڑا گلی میں یکم اگست سے دس اگست تک ایک سمر کیمپ کا انعقاد کیا، جس میں 65 سینیئر گائیڈز اور نوجوان لیڈرز کو ایک بہترین ماحول میں عصری تربیت دے کر ان سے مشقیں کروائی گئیں۔
اختتامی تقریب میں چیف گائیڈ بیگم ثمینہ علوی نے شرکت کرکے اسے ایک کامیاب سمر کیمپ قرار دیا۔
تاہم گرل گائیڈ زصوبہ خیبر پختونخوا چیپٹر نے ہیڈکوارٹر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا چیپٹر کو نیشنل سمر کیمپ میں مدعو نہ کرکے اس صوبے کی نوجوان خواتین کو ایک قیمتی موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم کیا گیا۔
حقائق جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے گرل گائیڈز کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا تو موصول ہونے والی پریس ریلیز میں واقعتاً سندھ اور خیبر پختونخوا کے نام شامل نہیں تھے۔ مدعو کیے جانے والوں میں سے صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، اسلام آباد، پنجاب اور بلوچستان کا ہی ذکر تھا۔
اس حوالے سے استفسار پر پاکستان گرل گائیڈز ایسوسی ایشن کی موجودہ نیشنل کمشنر ماریہ معود صابری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی تنظیم بہت منظم طریقے سے کام کرتی ہے اور سمر کیمپ کے لیے وہ پورا سال صوبوں کے ساتھ باہمی مشوروں اور تیاریوں کے بعد کسی کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کو مدعو نہ کرنے کی وجہ کرونا وبا کی موجودہ صورت حال تھی۔
’ہمیں لاک ڈاؤن کا خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو واپسی کے وقت ٹرانسپورٹ نہ ملے اور پریشانی پیدا ہوجائے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ جہاں وبا کی وجہ سے دیگر صوبوں کو نظر انداز کیا گیا، وہیں بلوچستان اور پنجاب کو کیوں مدعو کیا گیا؟ نیشنل کمشنر نے بتایا کہ ہیڈکوارٹر نے انہیں قیام کے لیے جگہ دی تھی جب کہ سفری ودیگر اخراجات صوبوں نے خود برداشت کیے تھے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا چیپٹر کی صدر فائزہ بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ہیڈکوارٹر سے کوئی دعوت ملی ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں پہلے ہی گرل گائیڈز چیپٹر کئی دہائیوں سے غیر فعال ہے، جس میں روح پھونکنے میں نہ تو ہیڈکوارٹر، نہ محکمہ تعلیم اور نہ ہی حکومت کوئی دلچسپی لے رہی ہے۔‘
’ہمیں کسی قسم کے فنڈز نہیں دیے جارہے تاکہ سکولوں اور کالجوں میں گرل گائیڈز کو فعال کیا جاسکے۔ اس کے باوجود ہر سال سرکاری تعلیمی اداروں میں طالبات سے 12 روپے کی فیس گرل گائیڈز کے نام پر کاٹی جاتی ہے۔ اس کے خلاف ہم عدالت بھی گئے۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ خیبرپختونخوا چیپٹر کو وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ اندر کی سازشوں کی وجہ سے مدعو نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فائزہ بابر نے کہا کہ گرل گائیڈز چیپٹر میں وہ اور دیگر تمام عہدیداران رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور ان کی تقرری باقاعدہ انتخابات کے نتیجے میں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی رضاکارانہ کاوشوں کے باوجود ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے صوبے کی نوجوان خواتین کو گائیڈز ہاؤس اور چیپٹر کے اغراض و مقاصد سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
فائزہ بابر نے الزام لگایا کہ جب سے انہوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر پشاور ڈبگری گارڈن میں واقع گائیڈ ہاؤس سے ملحقہ کوارٹرز کو ذاتی ملازمین اور کلینکس سے خالی کروایا ہے، اس کی ہی پاداش میں گرل گائیڈز خیبرپختونخوا چیپٹر کو سمر کیمپ میں شمولیت کا موقع نہیں دیا گیا۔
اس الزام کے حوالے سےانڈپینڈنٹ اردو نے دوبارہ نیشنل کمشنر ماریہ معود سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کرکے کسی قسم کا جواب اس رپورٹ کے شائع ہونے تک نہیں دیا۔
حالیہ سمر کیمپ میں طالبات کو کیا تربیت دی گئی؟
اسلام آباد میں واقع گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن ہیڈکوارٹر کی مینیجر پبلک ریلیشنز سیدہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سمر کیمپ میں بنیادی طور پر چار قسم کی تربیت دی گئی جن میں خواتین کی جذباتی صحت، آن لائن حفاظت، منشیات سے حفاظت اور ذاتی حفاظت شامل تھے۔
’خواتین کو گرہیں لگانا، گیجٹ میکنگ اور خیمے لگانا سکھایا گیا۔ سیلف ڈیفنس پر سیشن دیے گئے، مالیاتی آگاہی پر ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا اور نوجوان رہنماؤں کے لیے یوتھ فورم کا اہتمام بھی کیا جس میں انہیں لیڈرشپ کا موضوع پڑھایا گیا۔‘
سینئیر گائیڈز کو علاقے کے دور دراز سکولوں کا دورہ کروانے کے ساتھ تمام گائیڈز اور لیڈرز کو گھوڑا گلی کے پرفضا مقام کی سیر بھی کروائی گئی جو کہ ان کی صحت اور مشاہدے کے لیے سمر کیمپ کا ایک ضروری جز تھا۔
پاکستان گرل گائیڈز ایسوسی ایشن کا پس منظر
گرل گائیڈز ایک عالمی تحریک ہے جس کا قیام پہلی مرتبہ 1909 میں ہوا تھا۔ برصغیر میں اس کا قیام 1911 میں ہوا۔ تاہم پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائد آعظم محمد علی جناح نے ایک الگ شاخ کی بنیاد رکھی جسے پاکستان گرل گائیڈز ایسوسی ایشن کا نام دیا گیا اور جس کی صدر فاطمہ جناح منتخب ہوئیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا (اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے) میں گرل گائیڈز چیپٹر کا افتتاح اکتوبر 1962 میں فاطمہ جناح کے ہاتھوں ہوا تھا۔
’گائیڈز‘ کا لفظ ایک برٹش لیفٹینٹ جنرل رابرٹ بیڈن پاول نے پہلی مرتبہ خواتین گائیڈز کے لیے استعمال کیا تھا۔
بیڈن پاول نے سکاؤٹ لڑکوں کے لیے ٹریکنگ، ہائیکنگ، سگنلنگ اور دیگر اہم معلومات پر مبنی ایک کتاب لکھی تھی جو بعد ازاں لڑکیوں میں بھی مقبول ہوئی۔
کتاب سے ان میں اس قدر خود اعتمادی پیدا ہوئی کہ اس دور کے قدامت پسند برطانیہ میں ایک ریلی میں لڑکیوں نے بھی بڑی تعداد میں لڑکوں کے شانہ بشانہ شرکت کی۔
لندن کی ایک میگزین میں ان خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد پاول نے اپنی بہن کو ’گرل گائیڈز‘ کا الگ دستہ بنانے کا مشورہ دیا تھا۔
بیڈن پاول کے مطابق انہوں نے ’گائیڈ‘ کا لفظ برٹش انڈین آرمی کی ایک مشہور رجمنٹ ’کور آف گائیڈز‘ سے اخذ کیا تھا۔ اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی خطے کے علاقے صوابی سے ظہور پذیر ہونے والی یہ رجمنٹ اپنی بہترین جنگی حکمت عملی کی وجہ سے کافی مشہور تھی۔