امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم سافٹ ویئر کمپنی بزنس ایفیشنسی سلوشنز (بی ای ایس) نے چینی کمپنی ہواوے پر پاکستان سیف سٹی منصوبے کے ذریعے مبینہ طور پر تجارتی راز چوری کرنے کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا ہے، جس کے بعد سیف سٹی اتھارٹی نے اس معاملے کی وضاحت طلب کرتے ہوئے ڈیٹا سکیورٹی چیک لگا دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کیلیفورنیا میں قائم بی ای ایس کمپنی نے رواں ہفتے دائر کی گئی شکایت میں چینی کمپنی پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے اپنی ٹیکنالوجی کو ایک بیک ڈور بنانے کے لیے استعمال کیا، جس سے اسے پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے اہم اور حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت ملی۔
روئٹرز کے مطابق ہواوے کمپنی سے اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے ابھی تک تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
شکایت کے مطابق ہواوے نے 2016 میں بی ای ایس کے ساتھ 150 ملین ڈالر کی بولی لگائی تھی تاکہ پاکستانی حکومت کے پروگرام کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا جاسکے جو لاہور میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نئی ٹیکنالوجی مہیا کرے۔
بی ای ایس نے کہا کہ اس نے اس پروجیکٹ کے لیے سافٹ ویئر بنایا جو سرکاری اداروں سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے، عمارتوں تک رسائی کو کنٹرول کرتا ہے، سوشل میڈیا پر نظر رکھتا ہے اور ڈرونز کا انتظام کرتا ہے۔
مزید کہا گیا کہ پروجیکٹ کے لیے تیار کردہ آٹھ سافٹ ویئر سسٹمز میں ملکیتی کوڈ، ڈیزائن، ڈایاگرام اور دیگر معلومات شامل ہیں جو کہ بی ای ایس کے کاروبار کے بنیادی قیمتی تجارتی راز ہیں۔
ہواوے کے حکام نے مبینہ طور پر مطالبہ کیا کہ بی ای ایس یہ معلومات چین میں کمپنی کو جانچ کے لیے بھیج دے، نیز بی ای ایس نے کہا کہ وہ اس مطالبے سے اتفاق کرتا ہے لیکن ہواوے کی جانب سے ٹیسٹنگ لیبارٹری تک رسائی کو منسوخ کرنے کے بعد اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی اجازت ختم کر دی گئی۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ہواوے نے ابھی تک سافٹ ویئر ڈیزائن کا کوئی خفیہ ٹول واپس نہیں کیا اور نہ ہی سافٹ ویئر کو اَن انسٹال کیا ہے، جیسا کہ بی ای ایس نے کہا ہے کہ اس سے اتفاق کیا گیا ہے۔
بی ای ایس نے کہا کہ ہواوے نے بعد میں مطالبہ کیا کہ وہ اپنا ڈیٹا اکٹھا کرنے والا سافٹ ویئر انسٹال کرے گا، جسے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی چینی لیب میں مختلف ذرائع اور حکومتی ایجنسیوں سے حساس ڈیٹا جمع کرنے اور تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
بی ای ایس نے الزام لگایا کہ یہ نہ صرف جانچ کے مقاصد کے لیے تھا بلکہ مکمل رسائی کے ساتھ لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے ڈیٹا کوختم بھی کرانا تھا لیکن ہواوے نے اثرورسوخ کے ذریعے ایسا نہیں ہونے دیا۔
شکایت میں ہواوے پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سافٹ ویئر کو چین سے بیک ڈور کے طور پر لاہور تک رسائی، ہیرا پھیری اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے اہم حساس ڈیٹا نکالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
بی ای ایس نے یہ بھی کہا کہ ہواوے نے اپنے کچھ سافٹ ویئرز کے لیے کبھی ادائیگی نہیں کی اور یہ کہ ہواوے پاکستان اور دنیا بھر میں اسی طرح کے ’سیف سٹی‘ منصوبوں میں اپنے تجارتی رازوں کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ہواوے نہ صرف پنجاب سیف سٹی اتھارٹی بلکہ ایسے دوسرے منصوبوں کے ذریعے دنیا کے دیگر ممالک سے راز چرانے کا جرم بھی کر رہی ہے جبکہ اس کمپنی پر شکایات سامنے آنے پر تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
سیف سٹی اتھارٹی پنجاب کیا کہتی ہے؟
دوسری جانب سیف سٹی اتھارٹی پنجاب کے سربراہ ڈی آئی جی کامران خان کا کہنا ہے کہ ہواوے سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی گئی ہے اور اپنی طرف سے بھی اس پر ڈیٹا سکیورٹی چیک لگایا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کامران خان نے بتایا: ’ہماری ٹیم بی ای ایس کمپنی کے ہواوے پر الزامات کی چھان بین کر رہی ہے تاکہ الزامات کو مکمل چیک کیا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ چینی کمپنی ہواوے نے جب سے سیف سٹی منصوبہ مکمل کرکے ہمارے حوالے کیا ہے، ہم نے صرف ان کے ڈیٹا سکیورٹی سسٹم پر انحصار نہیں کیا بلکہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے مانیٹرنگ کا نظام بھی رائج کیا ’ہمیں ایسی کوئی معلومات یا تصدیق نہیں ہوئی کہ ہمارا خفیہ ڈیٹا چوری کیا جا رہا ہو یا کیا جاسکتا ہو، تاہم کیلیفورنیا میں دائر کیس میں لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔‘
کامران خان کے بقول انہوں نے ہواوے کمپنی سے بھی ان الزامات کا جواب طلب کیا ہے، جس انہوں نے ابتدائی طور پر جواب یہ دیا کہ ’انہوں نے جب یہ منصوبہ شروع کیا تو انہوں نے شکایت کرنے والی امریکی کمپنی بی ایس سی سے کچھ سافٹ ویئر خریدنے کا معاہدہ کیا، لیکن وہ بعض سافٹ ویئر فراہم نہ کرسکے، جس پر ہواوے نے ان کی بقایا ادائیگی روک لی۔ لین دین کے اس معاملے پر وہ کمپنی اس سے پہلے بھی ہواوے کے خلاف اس طرح کے الزامات لگا چکی ہے۔‘
کامران خان کے مطابق ہماری چھان بین میں ہواوے کمپنی کی جانب سے ایسا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا کہ وہ ہمارا ڈیٹا چرا سکتے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انہوں نے کہا کہ ’الزامات کی تحقیق ضروری ہے اور وہ کی جارہی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم ٹیکنالوجی کے اپ گریڈ ہونے کے ساتھ اپنا سسٹم بھی باقاعدگی سے اپ گریڈ کرتے ہیں اور اس کے ڈیٹا سکیورٹی چیکس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے لاہور سیف سٹی کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے قصور اور لاہور شہر کے دیگر مقامات پر بھی کیمرے نصب کرنے کے لیے فنڈز منظور کرلیے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے 2015 میں سیف سٹی اتھارٹی پنجاب کی بنیاد رکھی جبکہ 2016 میں اس منصوبے پر کام شروع ہوا، جس کا مقصد کیمروں کی تنصیب اور دیگر جدید آلات سے صوبے کے شہروں کی سکیورٹی سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لہر ہو یا روزمرہ جرائم، اس منصوبے سے مجرموں کو پکڑنے کی رفتار کئی گنا تیز ہوگئی۔
اس کے بعد وفاقی ودیگر صوبائی حکومتوں نے بھی اس منصوبے سے استفادہ کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں بھی یہ نظام متعارف کرایا۔
کراچی، کوئٹہ اورپشاور میں اس منصوبے پر عمل درآمد تو جاری ہے لیکن ابھی تک یہ منصوبے مکمل نہیں ہوسکے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور سیف سٹی منصوبے پر ساڑھے 17 ارب روپے اور اسلام آباد میں 12 کروڑ 60 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے اور یہ 2016 سے کام کر رہا ہے۔
اسی طرح کراچی میں بننے والے سیف سٹی منصوبے کے لیے رواں سال 30 ارب روپے مختص کیے گئے جب کہ کوئٹہ میں سیف سٹی منصوبے پر اڑھائی ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں اس کامیاب منصوبے کے بعد وارداتوں پر قابو پانے کے ساتھ ای چالان کا نظام بھی سامنے آیا، مگر اس منصوبے سے متعلق تحفظات بھی پائے گئے کہ اس نظام کے ذریعے پاکستان کا خفیہ ڈیٹا بھی چینی سافٹ ویئر کمپنی ہواوے چوری کر سکتی ہے، لیکن اس وقت اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا اور تاحال اس سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ مال روڈ چیئرنگ کراس دھماکے کے ملزمان کو بھی سیف سٹی نظام کے تحت ہی گرفتارکیا گیا تھا۔