آسیہ بی بی کے وکیل ایک اور مقدمہ لڑنے پاکستان آئیں گے

شفقت مسیح اور شگفتہ کوثر کو توہین مذہب پر مبنی ایس ایم ایس بھیجنے پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔

آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل سیف الملوک (اے ایف پی)

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والے ایک مسیحی جوڑے کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

آسیہ بی بی کیس میں کامیابی کے بعد عالمی شہرت حاصل کرنے والے سیف الملوک شدت پسند عناصر کی دھمکیوں کے بعد پاکستان سے چلے گئے تھے۔

ان دنوں برطانوی شہر نوٹنگھم میں مقیم سیف الملوک نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مسیحی جوڑے کا مقدمہ لڑنے کے لیے مئی کے آخر میں پاکستان آرہے ہیں۔

سیف الملوک کے مطابق ان کے موکل شفقت مسیح اور شگفتہ کوثر اس وقت توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کیس کی تفصیل کچھ یوں بتائی: کیس کے مدعی گوجرہ میں واقع ایک مسجد کے امام محمد حسین کے مطابق 18 جولائی 2013 کو ماہ رمضان میں تراویح کے دوران تقریبا رات 10 بجے انہیں موبائل فون پر ایک نامعلوم نمبر سے توہین مذہب پر مبنی کچھ پیغامات موصول ہوئے۔ انہوں نے فورا یہ پیغامات اپنے دو دوستوں کو دکھائے۔ دو دن انتظار کے بعد دوستوں کے اصرار پر انہوں نے ایک وکیل کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ وکیل ساجد اصغر کھوکھر نے اس نامعلوم نمبر پر کال کی تو کسی نے کال نہ اٹھائی، اس اثنا میں ساجد کے نمبر پر اُسی نامعلوم نمبر سے ویسے ہی توہین آمیز چار پیغامات موصول ہوئے۔‘

ان کے مطابق:’20 جولائی 2013 کو محمد حسین کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جس کے بعد مدعی نے اس نمبر کی معلومات لینے کے لیے گوجرہ میں موجود ٹیلی فون فرنچائز کا رخ کیا گیا۔ جہاں موجود شخص نے انہیں ایک رجسٹر سے دیکھ کر بتایا کہ اس نمبر کی سم شگفتہ کوثر کے نام پر جاری کی گئی ہے۔ فرنچائز کی جانب سے سم خریدنے والے شخص کے بارے میں مزید کوئی معلومات نہیں دی گئی اور نہ ہی شناختی کارڈ نمبر یا پتے کی تفصیلات فراہم کی گئیں‘۔

جس کے بعد محمد حسین نے الزام لگایا کہ سم لینے والی شگفتہ دراصل شگفتہ مسیح ہیں اوران کے شوہر شفقت مسیح کو بھی توہین مذہب کا مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔

ایڈوکیٹ سیف الملوک کے مطابق ان کے موکل شفقت مسیح 2005 میں ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد سے اپاہج ہیں۔

سیف الملوک پرامید ہیں کہ قانونی طور پر ان کا مقدمہ مضبوط ہے اور وہ ان قانون نکات کو اٹھانے جا رہے ہیں۔

1:  اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ سم شگفتہ مسیح نے ہی خریدی۔

2: شفقت مسیح کو21 جولائی 2013 کو گرفتار کیا گیا اور شفقت نے پولیس کی حراست میں مجسٹریٹ کے سامنے جو اعترافی بیان دیا اس میں انہوں نے کہا کہ سم خریدنے میں ان کی بیوی کا کوئی کردار نہیں تھا، وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتیں جبکہ بھیجے جانے پیغامات بھی میں نے کیے تھے۔

3: ایس پی پولیس محمد ناصر سیال کے مطابق21 جولائی شام 6:30 بجے شفقت مسیح نے علاقہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں اعتراف جرم کیا۔ مگر سیف الملوک ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ 21 جولائی 2013 کو پاکستان میں 13رمضان المبارک اور اتوار کا دن تھا۔ ان کے مطابق ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں کہ اتوار کو کوئی مجسٹریٹ شام کے ساڑھے 6 بجے بیٹھا اعترافی بیان ریکارڈ کر رہا ہو۔

4: سیف الملوک کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پولیس کی حراست میں لیے جانے والے اعترافی بیان پر رائے دے چکی ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی ملزم کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ ان کے مطابق یہ اعتراف جرم جعلی ہے اور ایسا پولیس تشدد کے باعث کیا گیا۔

5: فرنچائز والے شخص کے مطابق سم خریدنے شگفتہ اور شفقت دونوں آئے تھے۔ سیف الملوک نے سوال اٹھایا کہ کیا فرنچائز والا ہر سم خریدنے والے کی شکل و صورت یاد رکھتا ہے؟

6: رجسٹر پر موجود سم کے فروخت کرنے کا سیریل نمبر 78 شفقت مسیح کے نام پر ہے جبکہ فرنچائز پر بیٹھا شخص شگفتہ پر سم خریدنے کا الزام لگا رہا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایڈیشنل جج نے شگفتہ کوثر اور شفقت مسیح کو چاراپریل 2014 کو پاکستان پینل کوڈ کی شق 295 سی اور ذیلی شق 34 کے تحت سزائے موت سنائی۔

ایڈوکیٹ سیف الملوک کے مطابق ان کے موکلین پر لگائے جانے والے الزامات جھوٹے ہیں اور کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔

وہ کہتے ہیں: شگفتہ کوثر اور شفقت مسیح کے چار بچے چھ سالوں سے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ وہ مضبوط دلائل کی بنیاد پر یہ مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان