پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے بس ڈرائیوڑ عبدالحق بونیری متحدہ عرب امارات کے شارجہ کلچرل سینٹر میں مشہور خطاط کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
عبدالحق بونیری کی خطاطی نہ صرف بین الاقوامی مقابلوں میں پیش ہوتی ہے بلکہ شارجہ کے سلطان شیخ کو بھی ان کی خطاطی پسند آئی اور ان کے دیوان کی زینت بنی۔
عبدالحق بونیری شارجہ کلچرل سینٹر میں بس ڈرائیورکے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور آج کل اپنی چھٹی کے دن گزارنے اپنے آبائی گاؤں بھائی کلے بونیر آئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 1998میں پاکستان سے دبئی گئے تھے اور وہاں پر مزدوری کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنی ٹیکسی خریدی لیکن قانون میں تبدیلی سے ٹیکسی کا روزگار بھی خراب ہوگیا اور کام کی تلاش میں تھے کہ 2006میں محکمہ ثقافت شارجہ میں بس ڈرائیور کی نوکری مل گئی۔
یہاں مخلتف ممالک کے طالب علم خطاطی کے رموز سیکھ رہے تھے جنہیں دیکھ کر عبدالحق بونیری کو بھی یہ کام بہت پسند آیا۔
وہ بتاتے ہیں: ’اس دوران کیلیگرافی سینٹر کے استاد محترم الفاروق الخداد کی مجھ پر نظر پڑی اور کہا کہ آپ طالب علموں کے آنے تک موجود ہوتے ہیں تو اس دوران آپ آیا کریں تاکہ میں آپ کو خطاطی سکھاؤں تو مجھے بھی شوق پیدا ہوا۔‘
’تقریباً ایک سال بعد ہم نے ایک مقامی مقابلے میں حصہ لیا اور شارجہ کے کراؤن پرنس آئے اور انہوں نے حوصلہ آفزائی کی، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سات سال بعد میں اس قابل ہوا کہ شارجہ انٹرنیشنل کیلیگرافی ایگزیبیشن، جس میں دنیا بھر کے خطاط، آرٹسٹ اور پینٹرز وغیرہ حصہ لیتے ہیں، اس کے لیے میرا کام پسند کیا گیا اور جیوری میں پاس ہوگیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’جب ایگزیبیشن کا دن تھا تو محترم شیخ سلطان محمد بن القاسمی تشریف لائے تو سب آرٹسٹ اپنے اپنے کام کے ساتھ کھڑے تھے، میں بھی اپنے کام کے ساتھ کھڑا تھا۔ شیخ کو ہمارے مدیر نے کہا کہ محترم شیخ یہ ہمارے مرکز کے بس ڈرائیور ہیں اور انہوں نے محنت کرکے یہ کام کیا ہے تو محترم شیخ سلطان نے میری بہت ہی حوصلہ افزائی کی اور اپنے پیچھے لوگوں کو بلایا کہ آؤ دیکھو ایک بس ڈرائیورنے ایسا کام کیا ہے اور خطاط کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انہوں نے مجھے شاباش دی۔ شیخ سلطان ایگزیبیشن میں پسند آنے والی لوح خرید لیتے تھے تو میرا کام بھی پسند کیا گیا اور شیخ نے دو ہزار پانچ سو امریکی ڈالر پر وہ خریدا۔‘
کیا اس کے علاوہ شاہی خاندان کے لئے کوئی کام کیا ہے؟
خطاط عبدالحق بونیری نے کہا کہ اگر کوئی کام آتا ہے تو وہ بخوشی کرتے ہیں۔ مثلاً ایک بار محترم شیخ سلطان کی کتاب کی لانچنگ کے دن ان کے خصوصی مہمان آئے تھے توشیخ کی طرف سے مہمانوں کو ایک ایک کتاب تحفے میں دینی تھی تو اس کے پہلے صفحے پر مجھ سے لکھوایا گیا۔
’میں نے محنت کی، اس کا ثمرمجھے مل گیا ہے، میں ڈرائیور اور خطاط بن گیا ہوں، عربی میں ایک محاورہ ہے کہ ہر محنت کرنے والے کو صلہ ملتا ہے۔‘
وپ بتاتے ہیں کہ وہ ہاتھ سے بنے کاغذ پر جرمنی کی سیاہی سے لکھائی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہینڈ میڈ پیپر میں کوئی کیمیکل نہیں ہوتا، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی ایک سے دو صدی نہیں بلکہ تین صدیوں تک ہوتی ہے۔
’ہر خطاط کو کم سے کم تین گھنٹے پریکٹس کرنا پڑتا ہے۔ جب گاؤں چھٹی پر آتا ہوں تو میں پریکٹس ہی کرتا ہوں اور بچوں کو پتہ ہے کہ ابا جی کو خط معلوم ہے تو ادھر اُدھر سے نام لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خط میں ہمارے لیے پرندے بناؤ، بس ان کے ساتھ مشغول رہتا ہوں۔‘
کیا پاکستان میں کسی نمائش میں اپنے فن پارے شامل کیے؟
انہوں نے کہا: ’2017 میں الحمرا لاہورمیں ایک بین الاقوامی ایگزیبیشن میں حصہ لیا تھا اور میرا کام لگا تھا ۔‘
اس کے علاوہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں بھی ایک نمائش میں حصہ لیا اور لوگوں نے ان کا کام بہت پسند کیا تو توصیفی سرٹیفیکیٹ بھی ملا، جب کہ اسلام آباد میں پی این سی اے میں ایک بین الاقوامی نمائش تھی جس میں ان کے کام کی نمائش ہوئی۔
عبدالحق کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی حکومت اس فن کو سکولوں میں رائج کرے، یہ ہماری اسلامی ثقافت کا حصہ ہے اسے آگے لانا چاہیے۔