پاکستان کی موجودہ حکومت اقتدار کے تین سال مکمل کر چکی ہے اور تین سالہ جائزہ رپورٹ میں حکومت نے دعوی کیا ہے کہ کشمیر کا معاملہ ساری دنیا کے سامنے رکھا گیا اور بھارت انتہا ہندو توا کی سوچ پر سے پردہ اٹھایا گیا نیز کرتار پور کوریڈور کا افتتاح کیا۔
یہ بھی دعوی کیا گیا کہ پاکستان نے اسلامی ممالک کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا ہے، یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے جب کہ امریکہ سے بھی قومی سلامتی امور پر روابط ہیں۔
حکومتی جائزہ رپورٹ اور دعوؤں پر سفارتی امور کے ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کتنی کامیاب رہی؟ اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سفارتی ماہرین سے بات چیت کی۔
سفارتی پالیسی ناکام یا کامیاب ؟
سابق سفارت کار عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے سفارتی معاملات میں گزشتہ تین سالوں میں خاص کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکیں۔ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ وہیں پہ کھڑا ہے۔ کشمیر کا معاملہ بھی اُدھر ہی ہے پاکستان بھارت پر کوئی خاص دباؤ نہیں ڈال سکا۔ اگلے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات بھی ہو جائیں گے اس لیے میں سمجھتا ہوں کشمیر پہ پاکستان کی پالیسی ناکام ہی رہی ہے۔ نہ او آئی سی کوئی اجلاس بلوا سکے اور نہ ہیومن رائٹس کمیشن میں کشمیر کے معاملے پر ڈسکشن کروا سکے۔ ‘
’جس سے یہ واضح ہے کہ ہمیں بین الاقوامی برادری کا تعاون حاصل نہیں رہا۔ امریکہ کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات اتنے بہتر نہیں ہیں، افغانستان کے معاملے پر کچھ مسائل بھی آئے ہیں۔ تجارت کے معاملات کچھ بہتر ہوئے ہیں ہمارا زرمبادلہ بڑھا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں رقوم ریکارڈ تعداد میں بھجوائی ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے۔‘
سینئر سفارتی صحافی متین حیدر نے کا کہنا تھا کہ ’تین سالوں میں بے پناہ سنگین چیلنجز کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑا۔ پاکستان چین تعلقات پر امریکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ تین برسوں میں افغانستان بھی پاکستان کے لیے چیلنج تھا کیونکہ پاکستان قیادت افغانستان میں امن کے لیے کوشاں رہی جب کہ افغان قیادت پاکستان مخالف بیانات دیتی رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں پاکستان کی وہ پذیرائی نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔ اعلی سطحی دورے ہونے چاہیے تھے لیکن نہیں ہوئے۔ امریکہ کے حوالے سے بات کی جائے تو سابق امریکی صدر ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی لیکن امریکی نئی قیادت سے ابھی تک اعلی سطح رابطہ نہیں ہوا اگرچہ امریکی وزیر خارجہ نے تین مرتبہ پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا اور وزیر دفاع کے آرمی چیف سے رابطے ہوئے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی سفارتی کمزوری ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جنوبی ایشا کے دورے پہ آئے لیکن پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔
سفارتی دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کی سفارتی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے مغربی ممالک کے ساتھ غیر ضروری بحث چھیڑ لی ہے۔ اسلاموفوبیا لیکچرز کی وجہ سے تین سالوں میں عمران خان کا کسی یورپی ملک کا دورہ نہیں ہو سکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کا دورہ متوقع تھا لیکن وہ بھی اب التوا کا شکار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کا مغربی دنیا میں تاثر ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مذہب کا بہت عمل دخل زیادہ ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا بلا ضرورت تبصرہ سفارتی محاز پر بعض اوقات پاکستان کے لیے مشکل کھڑی کر دیتا ہے۔ انہیں احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان کو بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہی ہے جس کی وجہ سے یہ سٹیٹس پاکستان سے واپس لیے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کے تین سال مکمل اور دو سال باقی رہ گئے ہیں، انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ معاشی طور پر بھی حکومت ثابت نہیں کر سکی، بھارت کے ساتھ تجارتی معاملات بھی بحال نہیں کیے گئے۔ معاشی معاملات کو دیگر معاملات سے الگ رکھنا چاہیے تھ۔ کشمیر کے معاملے پر گلوبل پلیٹ فارمز پہ بھی پاکستان کو اہمیت نہیں دی گئی جب کہ اسلامی برادر ممالک نے بھی اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
سینئر صحافی شوکت پراچہ نے کہا کہ ’مجموعی طور پاکستان کی خارجہ پالیسی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ اگر سعودی عرب کی ہی مثال لی جائے تو ابتدا میں تعلقات بہت قریب ہو گئے لیکن پھر ایسا وقت بھی آیا کہ تعلقات خراب ہو گئے۔ لیکن اب تعلق بہتری کی جانب گامزن ہو رہے۔ امریکہ کے معاملے پر بھی پہلے ٹرمپ کچھ کہتا رہے پھر ٹرمپ عمران خان ملاقات ہوئی تو دونوں کی کیمسٹری دیکھنے لائق تھی لیکن اب پھر پاک امریکہ تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔‘
آنے والے دو سال سفارتی پالیسی کے لیے کیسے رہیں گے؟
سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ ’حکومت کے تین سال گزر گئے دو سال رہ گئے امید ہے اگلے دو سال میں پچھلی غلطیوں سے سکھیں گے۔‘
افغانستان کی صورتحال پہ انہوں نے کہا کہ سپائلرز تو یہی چاہیں گے کہ افغانستان میں امن نہ ہو لیکن پاکستان کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ عوامی مقامات پر افغانستان ایشو پر بیانات سے گریز کریں۔ ہمیں طالبان پہ سارا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے اور خطے میں طالبان حکومت کو تسلیم کروانے میں کردار ادا کریں۔ تاکہ سپائلرز کو کچھ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفارتی و دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ ’اگلے دو سالوں میں اگر پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو گی تو سفارتی معاملات بھی بہتر ہو سکیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ صرف ہمارے دفاعی روابط تمام اہم ممالک کے ساتھ اچھے ہیں لیکن سفارتی معاملات پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سینئر صحافی متین حیدر نے کہا کہ ’اگلے دو برسوں میں بھی پاکستان کے لیے چیلینجز رہیں گے۔ خصوصاً افغانستان کی صورتحال اور ٹی ٹی پی شدت پسندوں کی افغانستان میں رہائی پاکستان کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کو ٹیلی فون سے ہٹا کر دوروں پر بھی توجہ دینی ہو گی۔‘
صحافی شوکت پراچہ نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر پہلے بھی غیر یقینی تھی ابھی بھی غیر یقینی ہے اور آگے بھی غیر یقینی ہی محسوس ہو رہی ہے۔ ابھی پاکستان بھارت تعلقات بھی ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ آئندہ دو سالوں کے حوالے سے شوکت پراچہ نے کہا کہ پاکستان کی آئندہ کی خارجہ پالیسی افغانستان کے ارد گرد گھومے گی۔ وزیر خارجہ نے ابھی وسط ایشیا اور ایران کا دورہ بھی کیا ہے۔