افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد جنگ زدہ ملک کے شہری علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کی طرف کوچ کر رہی ہے۔
گذشتہ ہفتے سے ہزاروں افغان باشندے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) سے منسلک ایک مقامی این جی او (شارپ) کے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
ان افغان مرد و خواتین اور بچوں کی اکثریت پاکستان میں رہنے کا اجازت نامہ (پناہ گزین کارڈ) حاصل کرنا چاہتی ہے۔
شارپ کے دفاتر کے باہر اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے کابل کے رہائشی جماالدین کبیر کا کہنا تھا کہ افغان دارالحکومت پر طالبان کے کنٹرول کے بعد وہاں حالات بہت خراب ہو گئے تھے اور ان کا رہنا مشکل ہوگیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’بہت سارے نوجوان کابل اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھاگ رہے ہیں، کوئی ایران کے راستے ترکی کی طرف، اور کوئی پاکستان کی طرف۔‘
شارپ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ اب تک ادارے کو گذشتہ چند روز کے دوران تین ہزار سے زیادہ افغان باشندوں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، جو پاکستان میں قیام کے لیے قانونی دستاویزات کے خواہاں ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان پہنچنے والے افغان باشندوں میں سے بہت کم لوگ یہاں رکنا چاہتے ہیں۔ ’یہ لوگ آگے کسی مغربی ملک جانے کی کوشش کریں گے، لیکن جب تک پاکستان میں موجود ہیں اتنے عرصے کے لیے قانونی کاغذات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔‘
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کسی بھی سرحد کے راستے غیر ملکی شہری درست سفری دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی داخلوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ہی پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑھ لگائی ہے، جس کا زیادہ کام مکمل ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ باقاعدہ سرحدوں کے راستے ہی پاکستان میں غیر قانونی طریقوں سے داخل ہو رہے ہوں، ایسا تو کسی بھی ملک میں ہوسکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ 15 اگست کو اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ کر کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے پورے ملک کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے مخالفین اور امریکہ اور دیگر غیر ملکی افواج کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف بھی انتقامی اقدام نہ اٹھانے کا عندیہ دیا تھا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں افغانستان کے شہری علاقوں سے بیرون ملک جانے والے افغان باشندوں سے ملک میں رہنے کی اپیل کی تھی۔
تاہم طالبان کے وعدوں اور دعوؤں کے باوجود کابل اور افغانستان کے دوسرے شہروں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے بیرون ملک جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی ایک ہفتے تک رہنے والی صورت حال تھی، جہاں افغان باشندوں کی بہت بڑی تعداد کئی دنوں تک اس امید میں آتی رہی کہ وہاں سے اڑان بھرنے والے طیاروں میں بیٹھ کر وہ کسی مغربی ملک کی طرف جاسکیں گے۔
جماالدین کبیر کا کہنا تھا کہ وہ کابل سے گاڑی کے ذریعے اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان کے جنوبی صوبے ننگر ہار آئے اور وہاں سے سپین بولدک سے ہوتے ہوئے چمن بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ اور ان سے پہلے کئی افغان خاندان چمن بارڈر عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوئے۔
جماالدین کبیر نے بتایا: ’ہم نے ایک ٹرک میں چھپ کر بارڈر کراس کیا اور اس کے لیے ہمیں پیسے دینا پڑے۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد کی تردید کرتی رہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے کابل پر کنٹرول سے قبل ہی اسلام آباد مزید افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، تاہم تحریک طالبان افغانستان کے افغان دارالحکومت کا انتظام سنبھالتے ہی پاکستانی سرحدوں سے لوگوں کی غیر قانونی آمد شروع ہوگئی۔
این جی او شارپ کے دفاتر کے چکر لگانے والے افغان باشندوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو مغربی ممالک جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں یو این ایچ سی آر کی خدمات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔
افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان وارث خان ماضی میں ایک امریکی کمپنی میں ملازمت کرتے رہے ہیں اور اب امریکہ جانے کے خواہش مند ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس امریکی ادارے سے نوکری کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور وہ امریکہ جانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع خیبر میں طورخم بارڈر کے راستے پاکستان پہنچنے والے وارث خان نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ پر حالات بہت خراب تھے، اس لیے انہوں نے وہاں جانا مناسب نہیں سمجھا اور پاکستان آ گئے۔
افغان نوجوان کے خیال میں امریکی ادارے کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے اب افغانستان میں رکنا ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔