جب چار اغوا شدہ جہازوں نے ایئرلائن انڈسٹری کا نقشہ بدل دیا

نائن الیون حملوں کے سب سے زیادہ اثرات ایئرلائن انڈسٹری پر پڑے اور فضائی سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ کبھی کبھی تو جہاز کا سفر رحمت کی بجائے زحمت لگنے لگا۔

یہ اگست 2009 کا واقعہ ہے جب امریکی ریاست نیو جرسی کے نیوآرک ایئرپورٹ پر بالی وڈ سٹار شاہ رخ خان کو حراست میں لے کر ان سے دو گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔ شاہ رخ کے مطابق انہیں ان کے مسلم نام کی وجہ سے پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا، جس پر بھارت نے امریکہ سے وضاحت بھی طلب کی۔ بالی وڈ کنگ کے ساتھ بعد میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے۔

شاہ رخ خان جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت کو اس صورت حال کا کبھی بھی سامنا نہ کرنا پڑتا، اگر اس سے قبل نائن الیون کا واقعہ پیش نہ آتا۔ یہ وہ دن تھا جب چار اغوا شدہ جہازوں نے امریکہ کو تو ہلایا ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ایئر لائن انڈسٹری اور اس کے تحت کیے جانے والے سکیورٹی انتظامات کا نقشہ بھی پلٹ کر رکھ دیا۔

نائن الیون سے جہاں دوسرے شعبے متاثر ہوئے، وہیں اس کے سب سے زیادہ اثرات فضائی انڈسٹری پر پڑے۔

11 ستمبر 2001 کو دو مسافر بردار جہازوں کو ہائی جیک کرکے خودکش انداز میں امریکی شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرایا گیا، تیسرے جہاز نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے دفتر کو نشانہ بنایا جبکہ وائٹ ہاؤس کا رخ کرنے والے چوتھے جہاز کو امریکی لڑاکا طیاروں نے پنسلوانیا کے قریب مار گرایا۔

دہشت گردی کے ان واقعات میں تقریباً تین ہزار افراد مارے گئے، جس کا الزام امریکہ نے القاعدہ پر عائد کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ان کا ماسٹرمائنڈ قرار دیا۔

اس سے قبل بھی ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنے کے واقعات پیش آئے تھے لیکن زیادہ تر واقعات میں جہاز کے عملے اور مسافروں کو یرغمال بنا کر مطالبات منوائے گئے مگر جہاز کو اغوا کرکے اسے ہتھیار بنا لینا اور اسے اہم عمارتوں سے ٹکرا کر نہ صرف اپنی اور تمام مسافروں کی جانیں لے لینا بلکہ زمین پر بھی سینکڑوں لوگوں کو قتل کرتے ہوئے کسی ملک کی معاشی نبض روک دینا۔۔۔ سول ایوی ایشن کا ایسا تباہ کن استعمال پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور آئندہ ایسا نہ ہو، اس بات کو یقینی بنانے اور فضائی سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ کبھی کبھی تو جہاز کا سفر رحمت کی بجائے زحمت لگنے لگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے بھی واقعات سامنے آئے جب مغربی ممالک کا سفر کرنے والے خاص مذہب اور خاص رنگ کے لوگوں پر وہاں کے ایئرپورٹ حکام کو ہلکا سا شبہ ہوا اور مسافر کو فوری طور پر عارضی قید میں ڈال دیا گیا یا پھر فوراً گھر واپسی کی فلائٹ میں بٹھا دیا گیا۔ خاص طور پر اسامہ، محمد یا احمد نام والے افراد کو لائن سے الگ کرکے ان سے مزید پوچھ گچھ کی گئی۔

ایسے واقعات تو بہت عام ہوئے جہاں مسافروں کے سامان کی چیکنگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی اشیا بھی اتروالی گئیں، جن میں بیلٹس، جیکٹس اور جوتے بھی شامل ہیں۔ نائن الیون حملوں میں ہائی جیکرز نے جو باکس کٹرز استعمال کیے، پروازوں میں ان کے لے جانے پر تو تاحیات پابندی لگا دی گئی۔

مائع اشیا یعنی لکوئیڈز بھی ان پابندیوں کی زد میں آئے، خصوصاً جن کے بارے میں ایئرپورٹ حکام کو شبہ ہو کہ انہیں کسی بھی قسم کے بم بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہت سی پروازوں پر آپ پرفیوم کی مخصوص مقدار کی بوتل ہی لے جاسکتے ہیں۔

ایئرپورٹ کے ساتھ جہازوں کے اندر بھی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے، جن میں جہاز کے کاک پٹ اور بلک ہیڈز کے دروازے بند رکھے جانے لگے جبکہ جہازوں میں کھانے کے ساتھ دیے جانے والے کانٹے اور چھریاں بھی پلاسٹک کی ہوگئیں۔

امریکہ میں ورجن اٹلانٹک ایئرلائن کے اس وقت کے ترجمان پال مور کے مطابق ان سب اقدامات سے فضائی سفر مسافروں کے لیے کم پر کشش ہوگیا اور اس کا ایئرلائنز پر شدید اثر پڑا، جنہیں بحالی میں دو سے تین سال لگے۔

ایسا نہیں ہے کہ نائن الیون سے پہلے ایئرپورٹ پر مسافروں کی چیکنگ نہیں ہوتی تھی، لیکن ان حملوں کے بعد اسے مزید سخت کردیا گیا اور امریکہ میں ٹی ایس اے یعنی ٹرانسپورٹیشن سکیورٹی ایڈمنسٹریشن کا قیام عمل آیا، جس کا مقصد مسافروں کی سکریننگ کرنا تھا، لیکن ایک اور چیز بھی متاثر ہوئی، مسافروں کی پرائیویسی۔

بہت سے لوگوں نے ایئرپورٹ پر پروفائل چیکنگ سے بچنے کے لیے ’پری چیک‘ یا ’ٹرسٹڈ ٹریولر پروگرام‘ کا حصہ بننے کو ترجیح دی، جس کے لیے انہیں ایک مخصوص فیس ادا کرکے اپنی بنیادی معلومات حکام کو دینی پڑیں، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنی رقم کیسے اور کہاں خرچ کرتے ہیں۔

ان سارے اقدامات سے ایئرلائن سکیورٹی کا معیار بہتر ہوا یا نہیں، یہ سب تو ایک طرف لیکن ایک بات تو طے ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے فضائی سفر میں اب وہ کشش باقی نہیں رہی، جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا