دراز قامت، سرخ و سفید رنگت، نہایت شفیق انداز، معاملات پر گہری نظر رکھنے اور ہر وقت کام میں جتے رہنے والے ورکا ہولک (workaholic)، یہ تھے سینئیر صحافی، افغان امور کے ماہر اور روزنامہ دی نیوز کے پشاور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر رحیم اللہ یوسفزئی، جو جمعرات کی رات اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
کسے معلوم تھا کہ 10 ستمبر 1954 کو خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے گاؤں کاٹلنگ میں ایک سرکاری افسر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ کبھی صحافت کے افق پر ایسا ستارہ بن کر چمکے گا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دے گا۔
مرحوم نے 80 کی دہائی میں کراچی سے نکلنے والے اخبار روزنامہ سن سے پروف ریڈر کی حیثیت سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا، اور پھر کامیابیوں کے ایسے سنگ میل طے کیے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔
رحیم اللہ یوسفزئی 1986 میں پشاور منتقل ہوئے جہاں انہوں نے چند سال روزنامہ دی مسلم کے بیورو چیف کی حیثیت سے کام کیا، اور بعد میں روزنامہ دی نیوز سے منسلک ہو گئے، جو رشتہ ان کی موت تک جاری رہا۔
پاکستانی اخبارات کے ساتھ منسلک رہنے کے علاوہ رحیم اللہ یوسفزئی کئی غیر ملکی اخبارات اور دوسرے نشریاتی اداروں سے بھی منسلک رہے، جبکہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پشتو سے ان کا رشتہ سب سے طویل ثابت ہوا۔
رحیم اللہ یوسفزئی کو بین الاقوامی شہرت اس وقت نصیب ہوئی جب انہوں نے القاعدہ کے اسامہ بن لادن کا 1995 میں افغانستان کے صوبہ قندھار میں انٹرویو کیا۔
یاد ہے کہ رحیم اللہ صاحب جب اسامہ بن لادن کا انٹرویو کر کے واپس پشاور آرہے تھے تو ہمارے دفتر میں غیر ملکی ٹی وی چینلز کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود تھے، جو ان سے اس ملاقات یا انٹرویو کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے۔
صحافتی کیرئیر کے دوران رحیم اللہ یوسفزئی صاحب نے اسلام آباد میں ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ریسرچ افسر کی حیثیت میں بھی کام کیا، جہاں ان کے مطابق انہیں افغانستان کی تاریخ اور حالات کو جاننے کا موقع ملا۔
اکثر لوگ رحیم اللہ یوسفزئی کو ایک سینئیر صحافی اور افغان امور کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں، لیکن راقم تحریر کو تقریباً 10 سال تک ان کے ساتھ کام کرنے کے باعث، مرحوم کی دوسری صفات کے متعلق جاننے کا بھی موقع ملا۔
برس ہا برس تک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں سفر کرنے والے رحیم اللہ یوسفزئی مزاجاً ایک حساس اور درد دل رکھنے والی انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔
نوے کی دہائی کے وسط میں خیبر پختونخوا کی جیلوں پر لکھنے کی خاطر سینٹرل جیل پشاور جانے کا موقع ملا، جہاں بچوں کی ایک بیرک میں پنکھے نہیں تھے، جس کا ذکر میں نے واپسی پر دفتر میں کیا۔
رحیم اللہ یوسفزئی صاحب نے مجھے بعد میں اپنے کمرے میں بلا کر پیسے دیتے ہوئے کہا کہ 10 پنکھے خرید کر جیل سپرنٹینڈنٹ کے حوالے کردو کہ بچوں کی بیرک میں لگا دیے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی کامیابیوں کا راز یقیناً انتھک محنت تھی، اور وہ واقعتاً انگریزی لفظ workaholic کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔
اخبارات میں عام طور پر مدیراتی عملہ دوپہر کے بعد دفاتر کا رخ کرتے ہیں، لیکن رحیم اللہ یوسفزئی بیورو چیف ہونے کے باوجود صبح سویرے اپنی میز کے پیچھے موجود ہوتے اور شام تک کئی ایک خبروں پر کام کر چکے ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے ان کے ساتھ کام کرنے والے ہم رپورٹرز حیران ہوئے کہ رحیم اللہ صاحب اپنی فیملی کو ایک ہفتے کے لیے مری لے کر گئے ہیں، جہاں سے واپسی پر انہوں نے بتایا کہ کافی عرصے تک ٹال مٹول کے بعد اب بچوں نے بھی طعنے دینا شروع کر دیے تھے، اور انہیں لے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔
اپنے کام اور پروفیشن سے لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دل کے عارضہ کے باوجود اور ڈاکٹر کے مشورے کے برعکس وہ 90 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان گئے جہاں سے واپسی پر انہیں جہاز میں شدید ہارٹ اٹیک ہوا اور کئی روز تک اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زیر علاج رہے۔
کارکن صحافی کے طور کام کرنے کے علاوہ مرحوم ایک پرعزم ٹریڈ یونینیسٹ بھی تھے، اور صحافیوں اور دوسرے میڈیا ورکرز کی نمائندہ تنظیموں میں بھی لمبے عرصے تک سرگرم رہے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹس (کے ایچ یو جے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک) میں اہم عہدوں پر منتخب ہوئے، اور ان تنظیموں کی اہم کمیٹیوں اور کمیشنز کے رکن بھی رہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کی موت سے پاکستان کی صحافت ایک زیرک، محنتی، قابل اور پرعزم اور پرجوش کارکن سے محروم ہو گئی ہے، اور یہ خلا بہت لمبے عرصے تک پر نہیں ہو پائے گا۔
ان کی نماز جنازہ کاٹلنگ میں ان کے آبائی علاقے میں ہی ادا کی جائے گی۔